Column

استاد کی قدر کیجئے

تحریر : رفیع صحرائی
آج کل اساتذہ صاحبان نگران حکومتِ پنجاب کی جانب سے سلب کیے گئے اپنے حقوق کی بحالی کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ گو چالیس سے زائد محکمے پنجاب حکومت کی اس پالیسی کی زد میں آئے ہیں جس میں صوبائی ملازمین کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے مگر سڑکوں پر سب سے زیادہ تعداد اساتذہ کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کے بعد سب سے زیادہ سرکاری ملازمین اساتذہ ہی ہیں۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی ہے جس نے پورے معاشرے میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ حکومتی ایما پر پولیس نے اساتذہ صاحبان پر تشدد کیا اور ان کی گرفتاریاں بھی کیں۔ اسی دوران کسی بد بخت پولیس والے نے تشدد کے نتیجے میں ایک زمین پر گرے ہوئے باریش بوڑھے استاد کو ٹھڈے مارے۔ اس بوڑھے استاد کے لباس پر سینے کے دونوں جانب اس ’’ بہادر‘‘ پولیس والے کے بوٹوں کے نشان ثبت ہو گئے جو تشدد سے نیم بے ہوش اور انتہائی نڈھال ہے۔ استاد کی ایسی تذلیل کا کسی بھی مہذب معاشرے میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھا جائے تو یہ مظلوم اور نہتے اساتذہ ان پولیس والوں کی بھی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں بھی مراعات سے محروم ہونا پڑے گا جبکہ دورانِ سروس بنیادی تنخواہ کے انجماد کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ استاد نے پولیس والوں کو تعلیم سے آراستہ کر کے جہاں ان پر احسان کیا وہیں پر اب ان کی معاشی جنگ لڑ کر بھی ان کے محسن بن رہے ہیں۔ اس تصویر نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا ہے۔ والدین بچے کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اسے عالمِ بالا سے زمین پر لاتے ہیں جبکہ استاد وہ ہستی ہے جو اسے تعلیم دے کر، اس بچے کی تربیت کر کے اسے فرش سے اٹھا کر دوبارہ عرش کی بلندیوں تک لے جاتی ہے۔ استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ استاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہر و محبت اور دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ استاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔اسلام نے دنیا کو علم کی روشنی عطا کی، استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے۔ نبیِ کریمؐ نے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا :’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ( ابنِ ماجہ: 229)۔ اسلام نے معلم کو روحانی والد قرار دے کر ایک قابلِ قدر ہستی اور محترم و معظم شخصیت کی حیثیت عطا کی ہے۔ معلم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالمِ رنگ و بُو میں معلمِ اوّل خود ربِ کائنات ہیں، چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: ’’ اور آدم کو اللّٰہ کریم نے سب چیزوں کے اسما ء کا علم عطا کیا ( البقرہ۔31)۔ قرآن کریم میں تقریباً ہر نبیٌ کے لیے ’’ و یعلمہ الکتاب و الحکمتہ‘‘ کا جملہ استعمال کیا گیا ہے یعنی: ’’ وہ نبیٌ اپنی قوم کو علم و حکمت سکھاتے ہیں‘‘۔ استاد کے بغیر کوئی بھی قوم گمراہی کا شکار ہو جاتی ہے، اسی لیے جو قبیلہ بھی اسلام قبول کرتا پیارے نبیؐ وہاں ایک استاد مقرر کر دیتے تھے کہ قوم اندھیرے سے روشنی کی طرف آ جائے۔ استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔ معلم کو اللّٰہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے۔ مخبرِ صادقؐ نے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ : ’’ لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر اللّٰہ، اس کے فرشتے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں‘‘۔ ( ترمذی: 2675)۔ اساتذہ کے لیے نبی کریمؐ نے دعا فرمائی کہ : ’’ اللّٰہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی، اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچایا‘‘ ( ابو دائود: 366)۔ نبی کریمؐ کے بعد خلفائے راشدینؓ اور تابعین و تبع تابعین نے بھی استاد کی تعظیم و تکریم کی مثال قائم کی۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ معلمین کو درس و تدریس کیساتھ ساتھ اعلیٰ انتظامی امور اور عہدوں پر فائز کرتے تھے۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓکا قول ہے کہ: ’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا، میں اس کا غلام ہوں، خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا
بیچ دے‘‘ ( تعلیم المتعلم:21)۔ آج ہمارا معلم سڑکوں پر اپنے ناکردہ جرائم کی سزا بھگت رہا ہے۔ ملک کو دیوالیہ اور خزانے کو اپنی عیاشیوں و تعیشات کے لیے خالی کرنے والے سیاستدان استاد کے مقدر کے مالک بن کر استاد سے دو وقت کی روٹی چھیننے کے در پے ہو گئے ہیں۔ یہ استاد حکومت سے خصوصی مراعات نہیں مانگ رہے بلکہ اپنی ان مراعات کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو انہیں آئین نے دی ہیں اور ملازمت کے آغاز میں جن مراعات کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ غیر منتخب حکومت سرکاری ملازمین کو ان مراعات سے محروم کر رہی ہے۔ اساتذہ حکومت سے لڑائی کے لیے نہیں نکلے، نہ ہی وہ بے چارے لڑ سکتے ہیں۔ وہ تو داد رسی چاہتے ہیں۔ وہ حکومت سے اشک شوئی کی آس لگا کر اپنی فریاد لے کر آئے ہیں۔ فریادیوں کی فریاد سنی جاتی ہے انہیں آگے سے ڈنڈے اور ٹھڈے نہیں مارے جاتے۔ یاد رکھئے! یہ بڑے عہدے اور مناسب استاد ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ ان اساتذہ پر اتنے ظلم نہ کیجئے کہ قہر خداوندی جوش میں آ جائے۔ کیا یہ ستم نہیں ہے کہ اساتذہ اپنے سلب کئے گئے حقوق کی بحالی کے لئے سڑکوں پر رسوا ہورہے ہیں اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ آج معاشرتی انحطاط کا جو عالم ہے کیا کبھی اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔؟ اسے سمجھنے کے لیے سادہ سا نکتہ ذہن میں رکھئے کہ امام ابو حنیفہ، سکندر اعظم اور ہارون الرشید جیسے لوگ تاریخ میں کیوں زندہ ہیں؟ کیونکہ انہوں نے اساتذہ کو کبھی گلیوں میں گھسیٹ کر بوٹوں سے نہیں کچلا، بلکہ ان کے جوتے اٹھانے میں فخر محسوس کیا جبکہ ہم نے استاد کو اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ہماری بد بختی ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد کی عزت سے کسی چور اور کرپٹ سیاسی رہنما کا احترام زیادہ ہے۔ یہ آفاقی سچائی ہے کہ جس سماج نے استاد کی اہمیت کو جانا اور شعوری طور پر استاد کو اس کا حق دیا، اس نے کامیابی کی منزلیں عبور کیں اور جس معاشرے نے استاد کی تحقیر و تذلیل کی ذلت اور رسوائی اس قوم و ملک کا مقدر بن گئی۔

جواب دیں

Back to top button