
اپنے پیش رو کی طرح امریکی صدر جو بائیڈن بھی بعض اوقات آف سکرپٹ پر جانے کا رجحان رکھتے ہیں اور ان کا عملہ ان بیانات کی وضاحت یا اسے واپس لینے کی کوشش کر رہا ہے۔
واشنگٹن میں یہودی رہنماؤں سے خطاب کے دوران جو بائیڈن نے حماس کے حملہ آوروں کے ہاتھوں اسرائیلی بچوں کے سر قلم کرنے کی تصاویر پر حیرت کا اظہار کرنا اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
اس کے بعد وائٹ ہاؤس نے جو بائیڈن کے اس بیان کو واپس لے لیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ حماس کے حملہ آوروں کی طرف سے خاص طور پر گھناؤنے مظالم کی امریکہ کو باضابطہ تصدیق کی گئی تھی۔
اس بیان کے بعد اس دعوے کی صداقت پر بحث چھڑ گئی ہے اور اس نے جو بائیڈن کے اس پیغام سے توجہ بھٹکا دیی کہ وہ اس حملے کی مذمت کرتے ہیں اور اسرائیل کی مکمل حمایت میں کھڑے ہیں۔
قتل ہونے والے بچے ایک دل دہلا دینے والا المیہ ہوتے ہیں چاہے وہ کیسے بھی مارے گئے ہوں۔ لیکن جو بائیڈن کے ریمارکس نے امریکہ کے لیے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے کیونکہ وہ اسرائیل کی مدد اور حمایت کرنا چاہتا ہے۔
چونکہ اس نئے تنازعے کے گرد جنگ کی دھند چھائی ہوئی ہے، کسی بھی طرح کے پیچھے ہٹنے یا الجھن سے ان لوگوں کی مدد کرنے کا خطرہ ہے جو غلط معلومات پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان واقعات اور مظالم پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں سچ ہیں۔