تازہ ترینخبریںپاکستان

ماضی میں سپریم کورٹ نے ایک ڈکٹیٹر کو آئین کو روندنے کا اختیار دیا: چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے فائدے اور نقصان کو چھوڑیں صرف یہ بتائیں کہ کیا اس قانون سے عام آدمی کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔

انھوں نے کہا کہ محض مفروضوں پر بات نہ کریں بلکہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مطمئین ہیں کہ سپریم کورٹ جو بھی کرے تو وہ ٹھیک ہوگا تو درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وہ مطمئین ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں تو سپریم کورٹ نے ایک ڈکٹیٹر کو آئین کو روندنے کا اختیار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ نے آئین کے برعکس فیصلے دیے۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اس قانون کے تحت اپیل کا حق دیا گیا تو کیا اس سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہو سکتی ہے؟

جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت آپ کی صحت پر کیا اثر پڑا ہے؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ملک میں مارشل لگتے رہے ہیں تو کمرہ عدالت میں لگی ہوئی تصاویر والے حضرات سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

انھوں نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ ملک میں نیا مارشل لا لگوانا چاہتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی نیا چیف جسٹس آتا ہے تو سپریم کورٹ کی ڈائریکشن تبدیل ہو جاتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جس وقت آئین بنایا گیا تو اس وقت آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا جبکہ اب ترمیم کرکے اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آئین کا آرٹیکل ایک سو اکانوے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی سے روکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر آئین میں کوئی قدغن نہ ہو تو سپریم کورٹ اپنے لیے نئے رولز بنا سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button