
عالمی بینک کے مطابق تباہی کے دہانے پر کھڑی پاکستانی معیشت کو ابھی بھی مہنگائی،بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، موسمیاتی جھٹکے اور ترقی اور کلائمٹ ایڈپٹیشن (موسمیاتی موافقت) جیسی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کے مطابق پاکستان انسانی وسائل اور معاشی بحران کے درمیان میں ہے اور پاکستان کے پالیسی فیصلے بشمول فوجی، سیاسی اور کاروباری رہنماؤں کے مفادات سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان ایک "خاموش”انسانی وسائل کے بحران کا بھی سامنا کر رہا ہے جس میں غیر معمولی طور پر بچوں میں غذائیت کی کمی کی وجہ سے نشوونما نہ ہونے کی زیادہ شرح، کم سیکھنے کے نتائج اور بچوں کی زیادہ اموات شامل ہیں۔پاکستان کا معاشی ماڈل اب غربت میں کمی نہیں کر رہا ہے اور یہ بہت تشویش ناک ہے کہ2018تک غربت میں کمی کرنے والا پاکستانی معاشی ماڈل اب غربت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی غربت کی شرح 2018تک کم ہو کر 34.3فیصد تک آ گئی تھی جو دو دہائیوں قبل 37.5فیصد پر تھی تاہم اب وہ دوبارہ بڑھ کر 39.4فیصد کی بلند شرح تک جا پہنچی ہے۔گذشتہ ڈیڑھ سال میں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافوں کے نتیجے میں بڑھنے والی ہوش ربا مہنگائی سے مزید سوا کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر ساڑھے نو کروڑ افراد غربت کی لکیر (3.65ڈالر یومیہ آمدنی)سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
معیشت میں گراوٹ کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ رہی کہ ہماری اوسط حقیقی فی کس آمدنی2000سے 2020کے درمیان محض 1.7فیصد بڑھی جب کہ اسی عرصے میں جنوبی ایشیا کی فی کس اوسط آمدنی میں 4فیصد اضافہ ہوا۔عالمی بینک کے مطابق فی کس آمدنی کے حساب سے پاکستان کا شمار1980کی دہائی میں جنوبی ایشیا کے سرفہرست ملکوں میں ہوتا تھا جب کہ اب اس کا شمار خطے میں سب سے نچلے ممالک میں ہوتا ہے۔غربت کی شرح میں اضافے اور فی کس آمدنی میں کمی کے نتیجے میں پاکستان انسانی ترقی کے حوالے سے خطے کے ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔گذشتہ پانچ برسوں سے ہمارے 40فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہونے کی وجہ سے مناسب جسمانی و ذہنی نشوونما سے محروم ہیں جب کہ مملکت خداداد پاکستان میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ 2کروڑ 30لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔اس کے برعکس ہمارے ہاں آبادی بڑھنے کی شرح افغانستان کے علاوہ خطے میں سب سے زیادہ ہے۔آبادی میں اضافے سے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن معاشی ترقی نہ ہونے کے باعث روزگار کے مواقع محدود ہیں جس کے نتیجے میں نوجوانوں میں مایوسی اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔
غربت اور معاشی بحران کے شدید ہونے کی بنیادی وجوہات میں سماجی تحفظ کے ناکارہ نظام، بڑھتے ہوئے بے سمت اور غیر ضروری حکومتی اخراجات، غیر مساوی ٹیکس سسٹم، غیرپیداواری معیشت، کم پیداوار دینے والے زرعی سیکٹر، مہنگی توانائی اور اس کے باعث قرضوں کے بڑھتے بوجھ اور اشرافیہ کی گرفت میں کام کرنے والے غیر موثر پبلک سیکٹر شامل ہیں۔اس کے علاوہ ہماری افرادی قوت کی صلاحیت انتہائی کم ہے اور اسے پوری طرح استعمال میں نہیں لایا جا رہا۔غیر پائیدار مالی خسارہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جب کہ ایک اور اہم وجہ ناقص حکومتی پالیسیوں کے باعث سرمایہ کاری کے فقدان اور برآمدات میں آنے والی کمی ہے۔اس صورت حال سے نکلنے کے لیے معاشی ماہرین اور عالمی مالیاتی ادارے جن اہم اصلاحات پر زور دے رہے ہیں، ہمارے حکمران اس طرف نہیں آ رہے۔مجوزہ اصلاحات میں جن دو باتوں پر زور دیا گیا ہے ان میں سے ایک تجویز ان سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ہے جو اشرافیہ کی آشیر باد کے باعث تا حال ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق صرف دو سیکٹرز(رئیل سٹیٹ اور زراعت)پر ٹیکس عائد کر کے مطلوبہ محاصل حاصل کیے جا سکتے ہیں۔دوسری تجویز اخراجات کم کرنے پر زور ہے جس کا صاف اور سیدھا مطلب اشرافیہ کو حاصل اربوں کی مراعات اور شاہانہ اخراجات میں کمی ہے۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طاقت ور اشرافیہ (کارپوریٹ سیکٹر، جاگیر دار، سیاسی طبقہ اور فوج) کو سالانہ بنیادوں پر دی جانے والی مراعات کا تخمینہ 17.4ارب ڈالر بنتا ہے۔
آئی ایم ایف سمیت مالیاتی ادارے حکومت پر زور دے چکے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی کے دور میں امیروں سے زیادہ ٹیکس وصول کر کے غریبو ں کو تحفظ دیا جائے لیکن ہماری حکمران اشرافیہ نہ تو کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات پر کوئی آنچ آنے دیتی ہے اور نہ ہی خود کو حاصل اربوں کی مراعات میں کمی کی روادار ہے۔بجلی اور پٹرول بنیادی ضروریات زندگی ہیں لیکن حکومت اپنا ریونیو بڑھانے کے لیے انہیں ہی مہنگا کیے جا رہی ہے۔زبان خلق دہائی دے رہی ہے کہ اب غریبوں میں مزید مہنگائی اور ٹیکسز کا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی۔مہنگائی اور قرضوں کا بوجھ یا تو کارپوریٹ سیکٹر پر ڈالا جائے یا پھر اشرافیہ کی تفریح کے لیے بنے سینکڑوں گولف کلبوں میں سے چند ایک بیچ دئیے جائیں۔حکمران اشرافیہ میانہ روی اختیار کرتے ہوئے غیر ضروری اخراجات کم کرنے پر تیار ہو جائیں اور پروٹوکول کے نشے سے خود کو آزاد کرا لیں تو نہ صرف حکومتی اخراجات کم ہو سکتے ہیں بل کہ ریاست و حکومت پر عوام کا کھویا ہوا اعتماد بھی قدرے بحال ہو سکتا ہے۔کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے پاس دیگر ممالک کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کرنے کا پوٹینشل ہے لیکن حکومتی و ریاستی ارباب اقتدار کی ناہلیوں، غلط ترجیحات اور ناقص حکمت عملیوں نے ملک کی پہچان عالمی بھکاری کی بنا دی ہے۔ملک میں عالمی سربراہوں کی آمد تو دور کی بات، ہمارے حکمرانوں کا کسی ملک میں ڈھنگ سے استقبال نہیں ہوتا۔درج بالاحقائق پر ٹھنڈے دل و ماغ سے غور کرنے کے ساتھ ساتھ حکمران اشرافیہ کو ملک میں گذشتہ ایک دہائی سے جاری شدید نوعیت کے سیاسی عدم استحکام کے تدارک کے لیے بھی سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک میں سرمایہ کاری نہیں آتی اور سرمایہ کاری کے بغیر معیشت میں بہتری کا بس خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔بھارت اور بنگلہ دیش کے آگے نکل جانے کی وجہ ان کے ہاں پایا جانے والا سیاسی استحکام بھی ہے۔گذشتہ دو دہائیوں میں بھارت میں دو(من موہن سنگھ اور نریندر مودی) وزیراعظم نے دس دس سال تک حکومت کی جب اسی عرصے میں ہمارے ہاں 10وزیراعظم بدلے گئے۔اس کے علاوہ یہ بھی اہم ہے کہ گذشتہ 22 سالوں میں ہمارے ہاں صرف 4 آرمی چیفس آئے جب کہ اسی عرصے کے دوران بھارت میں 10آرمی چیف بدلے گئے۔اس موازنے سے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں میں سول وجمہوری بالادستی کی صورت حال کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔