تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

غذائی قلت کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرور ت ہے

اہتمام سردار سراج محمد انٹرویو اظہارا اختر تصاویر محمد عرفان

 

غذائی قلت پاکستان کا اولین مسئلہ ہے جسکی طرف توجہ دینے کی اشد ضرور ت ہے ۔ غذائی قلت کے باعث بچوں ، حاملہ عورتوں اور بوڑھے افراد کی زندگی بالخصوص خطرا ت سے دوچار ہو سکتی ہے ۔ غذائی قلت کے باعث بچوں کے قد عمر کے لحاظ سے چھوٹے رہ جاتے ہیں ۔ حاملہ عورتوں میں غذائی قلت بہت ساری پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے ۔دودھ، سبزیاں، پھل، اور گوشت مناسب مقدار میں ملتے رہیں توبچوں کی ذہنی و جسمانی نشوو نما ہوتی رہتی ہے ۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگ ضروریات کے مطابق غذا حاصل کر پاتے ہیں اور خوراک کی انسکیورٹی بہت زیادہ ہے۔ نیوٹریشن کے حوالے سے روزنامہ جہان پاکستان نے فریز لینڈ کمپینااینگرو پاکستان لمیٹیڈ کے جنرل مینیجر سائنٹیفک اینڈ ریگولیٹری آفیئرز ڈاکٹر محمد ناصر سے خصوصی انٹرویو کیا جس میں انہوں نے پاکستان میں نیوٹریشن کی دستیابی فوڈ سیفٹی اور لائیوسٹاک سے متعلق حقائق بیان کرتے ہوئے زور دیا کہ ملک میں ڈیری سپلائی چین کو مضبوط اور جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق استوار کرنے کی اشد ضرور ت ہے ۔ دنیا بھر میں دودھ کی سپلائی کا طریقہ پچھلی صدی سے تبدیل ہو چکا ہے لیکن ہمارے ہاں ابھی بھی اسی فرسودہ طریقے سے دودھ کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے ۔ ڈاکٹر محمد ناصر نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا وہ کسان کا بیٹاہے اور والد کی برین ٹیومرکے باعث موت کے بعد مزدوری کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اسکے بعد فیصل آباد سے کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی اورسکالر شپ پر پی ایچ اڈی میں داخلہ حاصل کیا اور تحقیق کرنے امریکہ چلا گیا۔ واپسی پر کچھ ماہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پڑھایا اور پھر یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز ٟUVASٞ میں لیکچرار کے طور پر کام شروع کر دیا ۔وہاں ڈیری ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ میں فرائض سرانجام دیے اور چھ ماہ بعد اسٹنٹ پروفیسر فوڈ اینڈ نیوٹریش کے طور پر پروموٹ ہوا۔ بعد ازاں فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن کا علیحدہ ڈیپارٹمنٹ قائم کیا ۔پھروہاں پہلے ا ٓفیسر انچارج بعدازاں ایسوسی ایٹ پروفیسر پرموٹ ہوا اور ڈیپارٹمنٹ کا فاونڈگ چیئر مین مقرر ہو گیا ۔اس دوران بہت سارے ڈگری پروگرامز شروع کیے ۔ فو ڈسیفٹی پروگرام، نیوٹریش اور ڈائٹیٹکس، فوڈ اینڈ نیوٹریشن میں ماسٹر، پی ایچ ڈی شروع کروائی ۔ اس ڈیپارٹمنٹ نے بڑی تعداد میں ماسٹر ، پی ایچ ڈی اور گریجویٹس پیدا کیے ۔100کے قریب مقالہ جات لکھے جبکہ اتنی ہی تعداد میں مختلف جگہوں پر ریسرچ ورک کو انٹرنیشنل فورمز پر پیش کیا ۔ 2017 میں تعلیمی کیئریر کو چھوڑ کر عملی فیلڈ جوائن کرنے کا سوچا اور پھر فریز لینڈ کمپینااینگرو پاکستان لمیٹیڈ کو بطور مینجر سائنٹیفک اینڈ ریگولیٹری آفیئرزجوائن کر لیا اور بعدازاں سینئر مینیجر اور جنرل مینیجر کے عہدے پر ترقی پائی ۔ اس کمپنی نے نیشنل سے انٹرنیشنل کمپنی کا سفر طے کیا کیونکہ پہلے یہ کمپنی اینگرو فوڈ ز کے نام سے جانی جاتی تھی لیکن پھر فریز لینڈ کمپینا نے اینگرفوڈ کے 51شیئرز خرید لیے ۔
ڈاکٹر محمد ناصر نے جہان پاکستان سے گفتگو ہوئے بتایا کہ انہوں نے بہت سارے حکومتی پروجیکٹس میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔پنجاب ملٹی سیکٹوریل نیوٹریشن سٹریٹجی بنائی۔جس میں زراعت ، لائیوسٹاک ،ایجوکیشن سیکٹر ، فوڈ ، صحت ،سوشل سیکٹر کو شامل کیا گیا ۔ حکومت سطح پر آگاہی دی کہ نیوٹریشن سینسٹو اور نیوٹریشن سپسیفک انٹرویشن کیا ہیں ۔اگر یہ ہم پنجاب میں عمل کروا لیں تو سٹنٹنگ یعنی بچوں میں قد کا چھوٹا رہ جانا اور ویسٹنگ یعنی بچوںکا سوکڑ پن کا شکار ہونا سے نجات مل سکتی ہے۔ نیوٹریشن کے انڈیکیٹر بہت برے ہیں۔ پاکستان میں سٹنٹنگ 40فیصد 18فیصدویسٹنگ کی شرح ہے ۔ ملٹی سکٹوریل نیوٹریشن سٹریٹیجی کے ساتھ 2007 کے پیور فوڈ رولز کو 2011 میں ری وائز کیا ۔ 2012 میں جب فوڈ اتھارٹی بنی تو میں اسکے پہلے سائنٹفیک بورڈ کا ممبر تھا۔2012 میں فوڈ اتھارٹی نے وہی ریگولیشن اپنائے جو ہم نے تیار کیے تھے۔ پنجاب مینیم پسچرائیزیشن رولز بنانے کا موقع ملا ۔ حکومت نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی تھی ۔ اسکے علاوہ بچوں اور عورتوں کی مخصوص خوراک کی ٹیکنیکل گائیڈ لائنز بنائیں اور اسی طرح کے بہت سارے مختلف پروجیکٹس پر کام کیا ۔ تعلیمی فرائض کے ساتھ ساتھ ریسرچ ورک پر بہت سارا کام کیا ۔ فنڈڈ ریسرچ پروجیکٹس کے علاوہ 150 سے زیادہ ایم فل اور پی ایچ ڈی پوسٹ گریجویٹس کی تحقیق کو سپروائزر کیا- تعلیمی اداروں میں انڈسٹری کی ارینٹیشن نہیں ہوتی ہے ۔ جو تھیسز پڑھائے جاتے ہیں ان پر عمل نہیں ہوتا ،چھ سال انڈسٹری میں رہ کہ دوبارہ یونیورسٹی میں جائوں تو بہتر ٹیچنگ کر سکتا ہوں ۔ اسی لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یونیورسٹی پروفیسروں کے لیے پریکٹیکل فیلڈ یا انڈسٹری میں کام کرنے کا تجربہ لازمی ہونا چاہیے خاص طور پر پروفیشنل تعلیم اور تحقیق کے شعبہ جات میں- تاکہ اساتذہ سٹوڈنٹس کو مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق تعلیم حاصل کروا سکیں-
2017 میں جب جوائن کیا تو پہلے اینگرو فوڈ ز ہوا کرتا تھا پھر اس دوران فریز لینڈ کمپینا نے اسکے 51 فیصد شیئر خرید لیے ۔ باہر کی سرمایہ کاری زراعت کے سیکٹر میں جدت لانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
پاکستان میں عملی طور پر بہت کچھ ہونے والا ہے ، ہر سطح پر ریفارمز، ایز آف ڈونگ بزنس ، ریگولیٹری کمپلائنس کے حوالے سے بھی بہت کچھ ہونے والا ہے ۔
کاسٹ آف کمپلائنس زیادہ ہوگی تو گاہک کو پروڈکٹ مہنگی ملے گی ۔
کمپنی نے مجھے فری ہینڈ دیا ہے تاکہ میں ریسرچ اور ٹیچنگ کے تجربے کو ملک عوام اور کمپنی کے بہترین مفاد میں استعمال میں لاؤں ۔ جس کی وجہ سے میں اپنی روز مرہ ذمہ داریوں کے ساتھ بہت سارے اور کاموں میں بھی مشغول رہتا ہوں۔ ڈاکٹر محمد ناصر کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ڈیزائن کیا کہ دنیا کے اندرریگولیٹری فریم ورک کس طرح سے کام کرتا ہے اور پاکستان میں کس طرح سے کام کر رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں ایک سے زیادہ معیار بن رہے تھے ۔ ملٹی پل رجسٹریشن ، لائسنسزتھے ،اسکا فائدہ کوئی نہیں تھا ۔اسکی وجہ سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا بلکہ مہنگی مل رہی تھیں ۔ کمپنی کی کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس اور کاسٹ آف کمپلائنس بھی بڑھ رہی تھی ۔ہیومن ریسورس بہت استعمال ہو رہا تھا ۔ اس عمل میں انڈسٹری کو آن بورڈ لیا اور ہم نے ورکنگ کی زریعے پاکستان بزنس کونسل پلیٹ فارم، پاکستان ایسوسی ایشن آف فوڈ انڈسٹری ،پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن ، اور فوڈ اتھارٹیز کے ساتھ ملکر اسٹینڈرڈ اور رولز بنائے ۔ کامیابی کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈر زکے ساتھ کام کیا ۔ ہم اسکو سی سی آئی کی سطح پر لیکر گئے ۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ سے اسکو پاس کروایا۔ اب کلیر ہو گیا کہ فیڈریشن اسسمنٹ کرے گی ، معیار اور ریگولیشن بنائے گی اور صوبے عمل کروائیں گے ۔امپورٹڈ پر الگ لوکل پر الگ رولز نہیں ہو سکتے اسی لیے تمام فیڈرلزاور پنجاب کے معیار کو یکجا کیا کر کے ہارمونائزڈ اسٹینڈرڈ بننا ملک کے لئے بہت ہی خوش آئند ہے ۔ ہارمونائزیشن آف ریگولیٹری فریم ورک بلاشبہ ایک بڑی کنٹر ی بیوشن تھی ۔ باہرکی کمپنی کے ساتھ ایچ آر اور وسائل وافر تعداد میں ہوتے ہیں لیکن لوکل کمپنی کے پاس نہ مناسب ایچ آر ہوتا ہے اور نہ ہی زیادہ پڑھے لکھے لوگ وہ ہائر کر سکتے ہیں ۔اس لیے لوکل کمپنی کو زیادہ مسائل تھے ۔ معیار مختلف تھے ۔ لائسنسنگ کیسے ہوگی ،رجسٹریشن کیسے ہوگی ۔ اگر ایک جگہ پر ہوجائے تو دوسری جگہ ضرورت نہیں وغیرہ ۔
آجکل وزیر اعظم کا پاکستان ریگولیٹری ماڈرنائزیشن انیشیٹو چل رہا ہے اسکے اندر پورا ون ونڈو سلوشن بن رہا ہے ۔ ایک ہی جگہ آن لائن پورٹل کے زریعے سار ا کچھ کیا جا سکے گا۔ جہاں ای لائسنس مل سکے گااور99فیصد کام اسی پر ہوگا ۔
میں روزانہ دو پرا میٹر پر اپنے آپ کو جانچتا ہوں اور غور کرتا ہوں کہ آج ملک اور قوم کے لیے کیا ڈلیور کیا اور خود کیا نیا سیکھا ۔ پاکستان میں بہت کم لوگوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ ریسرچ بھی کریں پڑھائیں بھی، اکیڈیما میں جائیں پھر پرائیویٹ کمپنی میں کام کریں ۔ اور ایسی کمپنی جس کا دنیا بھر میں نام ہو۔ ان سب ایکسپیرینسز کو ملا کر علم اپنے پاس رکھیں گے تو اسکا فائدہ نہیں ہوگا۔ گزشتہ سال لمز سے ایگزیکٹو ایم بی اے بھی شروع کیا جو عنقریب مکمل ہو جائے گا۔ سائنٹفک مائنڈ تو تھا، ریسرچ کر تا رہا ۔یہ محسوس ہوا کہ مارکیٹنگ ،سیلز ،ایڈمنسٹریشن کی بھی سمجھ ہوتی تو بہتر طور پر کنٹری بیوٹ کر سکتا تھا اسی لیے لمزسے ایم بی اے شروع کیاہے۔ روزانہ دو گھنٹے اپنی لرننگ پر ضرور دیتا ہوں ۔ چاہیے یوٹیوب پر ویڈیو یا موٹیویشنل ریل ہی کیوں نہ دیکھوں ۔ پاکستان میں ڈیری کی کھلی سپلائی چین فوڈ سیفٹی نہیں کو یقینی نہیں بناتی۔ دودھ ہمارے لیے بہت ضروری ہونے کے ساتھ بہت رسکی فوڈ بھی ہے ۔ اسکی سپلائی چین پاکستان میں جو بنی ہوئی ہے سیف نہیں ہے ترقی یافتہ ممالک میں یہ پچھلی صدی میں ہی ختم ہو گئی تھی ۔باہر کے ممالک میں دودھ نیوٹرینٹس ڈلیور کرتے ہیں نہ کہ آلودہ دودھ مہیا کا جاتا ہے ۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہے ۔ خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی دنیا کے برابر ڈیری کی سپلائی چین ڈویلپ کر سکیں ۔ اس کے لیے کسانوں کے ساتھ منسلک ہوا ہوں ۔ڈیری سیکٹر میں بہت بڑا پوٹینشل ہے اگر ہم اس پر کام کریں تو نہ صرف غذائیت کی قلت کو دور کیا جا سکتا ہے بلکہ کسانوں کی معاشی ترقی، ایکسپورٹ اور بہت سارے اور چھوٹے ایشوز بھی حل کیے جا سکتے ہیں ۔ لوکل پروڈکشن بہتر ہونے کے ساتھ کسان کے روزگارمیں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ جانوروں کی پروڈکشن بہتر کر لیں تو جتنی ایکپسورٹ آج ہے وہ دوگنا ہو جائے گی ۔ دنیا بھر میں جانوروں کی اوسط پروڈکشن 30 لیٹر روزانہ تک ہے جبکہ بعض ممالک میں چالیس لیٹر بھی ہے۔ ہمارے ہاں چا ر، پانچ لیٹر روزانہ ہے ۔ اگر ہم بنیادی طور پر جانوروں کو کھلا رکھیں اور پانی تک رسائی دے دیں تو تقریباً ایک لیٹر دودھ بڑھ سکتا ہے ۔ اگر ایک لیٹر سے پونا لیٹرتک بھی دودھ میں اضافہ ہو جائے تو 65بلین لیٹر دودھ کا 15سے 20فیصد اضافہ ممکن ہے جس سے ہم 1000 ارب تک رورل اکانومی بڑھا سکتے ہیں ۔جس سے کسان کی زندگی بدلی جا سکتی ہے ہمارے اردگردے ممالک دودھ کی کمی کا شکار ہیں ۔ وہاں یورپ نیوزی لینڈ آسٹریلیا امریکہ سےملک پائوڈر یا دودھ آتا ہے ۔ تو ہم کیوں نہیں دے سکتے ۔ہم گلف اور سنٹرل ایشا مارکیٹ میں جا سکتے ہیں ۔ افریقہ کے بعض ممالک میں ایکسپورٹ کر سکتے ہیں ۔بہت سارے ممالک میں ایکسپورٹ اس لیے نہیں کر پاتے کیونکہ ہماری سپلائی چین ٹھیک نہیں ہے۔پاکستان نیدر لینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ سنٹر بنایا گیا ہے جس کا مقصد پاکستان میں ڈیری چین سپلائی کو بہتر بنانا ہے۔ ہالینڈ چھوٹا سا ملک ہے جسکی 17ملین آبادی ہے ۔جنگ عظیم دوم میں لوگ بھوک سے مر رہے تھے ، وہاں پر سٹرک کا انفراسٹرکچر بھی نہیں تھا ۔ جہازوں سے خوراک پہنچائی جاتی تھی لیکن وہ ملک نہ صرف خود فوڈ پروڈیوس کرنے لگا بلکہ امریکہ کے بعد سب سے بڑا ایگری کلچر ایکسپورٹر ہے ۔ فریز لینڈ کمپینا ایک ڈچ کمپنی ہے وہاں پر ہمارا 80فیصد دودھ کا شیئر اس کمپنی کے پاس ہے تو ہم نے سوچا کہ اگر وہاں کے کسانوں کو یہاں لائیں اور یہاں سے کسان وہاں جائیں پھر پالیسی میکر اور ریگولیٹر کا تعارف بھی کروائیں تواس لرننگ کو پاکستان میں عمل درآمد کرواکر پاکستان دنیا میں بڑادودھ پروڈیوسر بن سکتا ہے ۔
نیوٹریشن پر بات کریں تو پاکستان میں ہمیشہ سے یہ تاثر رہا کہ نیوٹریشن محکمہ صحت کا حصہ ہے جبکہ اصل میں یہ ملٹی سیکٹورل ایشو ہے ۔ 45فیصد اوسط انکم کچن میں جاتی ہے ۔ اتنی بڑی رقم اگر کچن میں جائے گی تو فوڈ انسیکیورٹی بھی ہو گے ۔ ہمیں محفوظ فصلیں پروڈیوس کرنے کی ضرورت ہے ۔لائیو سٹاک میں فشیریز ، پولٹری ، انڈے اور دودھ وغیرہ ہیں ۔اگر انکی استعداد بڑھائیں گے تو لوگوں کو نیوٹریشن بہتر ملے گی ۔صفائی ستھرائی اور ہاتھ دھونے سے بیماریوں سے بچا جا سکتا۔ غریب لوگوں کے لیے
غذا خریدنا مشکل ہے اس لیے انکو کھانے کے لیے سبسڈی دینا پڑے گی تبھی کچھ نیوٹریشن بہتر ہو گی۔ جو امیر ہے اور اخراجات برداشت کر سکتے انکو اویئرنس دینا ہو گی اور
بتانا ہوگا کہ کون سی خوراک صحت کے لیے بہتر ہے تاکہ عوام کی مجموعی صحت اور نیوٹریشن کو بہتر بنایا جا سکے ۔اس میں بہت کام ہونے کی ضرورت ہے ۔ یو این ڈی پی ، گورنمنٹ اور دیگر ادارے نیوٹریشن پر کام کر رہے ہیں ،ہر ادارے کو نیوٹریشن کو لینز سے دیکھنا پڑے گا۔ ہر پروجیکٹ ہر فصل کو جو بیج آپ تیار کر تے ہیں اسکو دیکھنا پڑے گا کہ ہم پرڈکشن تو بڑھا رہے ہیں لیکن کہیں نیوٹیرنٹس کم تو نہیں کررہے ۔ گھر میں دودھ کو ابالتے ہیں اس میں 30فیصد ہیٹ سینسٹو نیوٹرینٹس ختم ہو جاتے ہیں ۔ ملائی اوپر آ جاتی ہے
اسکو استعمال نہ کریں تو وٹامن اے ڈی ای سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ پور ی دنیا میں چند افریقی ممالک کے علاوہ دودھ کھلا کہیں نہیں ملے گا۔
آپ کو پرایسس پیکج ہی دودھ ملے گا۔ دودھ اگرچہ بڑی نعمت ہے لیکن سیفٹی رسک بھی ہے۔ ہر طرح کی آلودہ چزیں اپنے ساتھ لا سکتا ہے اور اسکا بڑھا بھی سکتا ہے ۔ پیکنگ والے دودھ کو ایک تو پراسیس جلدی کرنا ہوتا ہے ٹیسٹنگ اور پراسیسنگ کے بعد محفوظ دودھ کو پیکٹ میں بند کردیا جاتا ہے تاکہ جراثیم اور گندگی داخل نہ ہو۔اگر گھر میں لا کر دودھ ابالیں گے تو وہ بہت ساری نیوٹرنٹس ضائع کرے گا۔۔ جب بھی کسی چیز کی کوکنگ کرتے ہیں تو جتنا نیوٹریشس فوڈ ہوگا انتا نقصان بھی زیادہ ہوگا ۔ ہالینڈ جائیں تو وہاں جانور ڈیزیز فری ہے ۔ کوئی دودھ کو ہاتھ نہیں لگاتا مشین پر سارا کام ہوتاہے ۔ جو دودھ برارہ راست چلر کے اند جاتا ہے کسان ایک لاکھ لیٹر پروڈیوس کر کے بھی اپنے لیے پیکجڈ دودھ مارکیٹ سے ہی خریدتا ہے –
ہماری سٹرٹیجی ہے کہ پہلے اپنا کنٹری بیوشن کرنا ہے اس سیکٹر میں جو گلوبل ایکسپرٹیز ہیں انکو پاکستان لانا ہے ۔ 100فیصد کمپلائنس کو انشور کرنا ہے جو بھی پروڈکٹ پاکستان میں تیار ہو عالمی معیارکے مطابق ہو ۔ہم نے اگلی نسل کے لیے محفوظ پاکستان چھوڑ کر جانا ہے جس کے لیے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button