Column

حسد نہیں، رشک کیجئے

رفیع صحرائی
حسد کے لغوی معنی کسی دوسرے شخص کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے درپے ہونا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کے بھائی کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے تو وہ آرزو کرتا ہے کہ کاش اس کا کاروبار تباہ ہو جائے، اسے کاروبار میں شدید نقصان پہنچ جائے۔ بھائی کے نقصان سے اسے راحت پہنچتی ہے۔ اپنے بھائی کا نقصان چاہنا اور اس کے زوال کی تمنا کرنا کسی طرح بھی قابلِ ستائش نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں رشک کا جذبہ ہے۔ حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھن جانے کی خواہش کرنا ہے جبکہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہو کر اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے۔ رشک میں دوسرے شخص سے اس کی نعمت چھن جانے یا اس نعمت کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی یعنی حسد منفی اور رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔
حسد کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب دین سے دوری اور مذہب کی مکمل تعلیمات کا نہ ہونا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر اچھی بری تقدیر اللّٰہ ہی کی طرف سے ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔ اگر ایمان پختہ ہے تو ہمیں اللّٰہ کی تقسیم سے خوش رہنا چاہیے کیونکہ اللّٰہ نے ہر انسان کو اپنی مرضی کے مطابق نوازا ہے۔ مصلحت کے تحت کسی کے پاس زیادہ اور کسی کے پاس کم نعمتیں ہیں۔ اپنی نعمتوں کا کسی اور کی نعمتوں کے ساتھ موازنہ کرنا ایمان کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔
ہاں اگر آپ اپنے حالات سے مطمئن نہیں ہیں تو اس کا حل بھی اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرما دیا ہے: ’’ اور یہ کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی کچھ جس کی اس نے سعی کی ہو گی‘‘ ( سورۃ النّجم۔ آیت: 39)
انسان کو جو کچھ کرنا ہو گا اپنی محنت اور کوشش کے بل پر کرنا ہو گا، محض خواہشوں اور تمنائوں سے کچھ نہیں ہو گا۔ اس آیت سے قبل آیت نمبر 24میں سوال کیا گیا تھا کہ : ’’ کیا انسان کو وہی کچھ مل جائے گا جس کی وہ تمنا کرے گا؟‘‘۔ آیت 39گویا مذکورہ سوال کا جواب ہے۔
آیت نمبر24اور آیت نمبر 39کو ملا کر پڑھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں محنت اور کوشش کی ضرورت ہے۔ دوسروں جیسا مقام و مرتبہ اور عزت حاصل کرنے کے لیے جہدِ مسلسل سے کام لینا ہو گا۔ ایسا کرنے سے یہ بات عین ممکن ہے کہ ہم دوسروں سے آگے نکل جائیں۔ جس مقام نے ہمیں آگے بڑھنے کی ترغیب دی تھی، اپنی محنت اور کوشش سے ایک دن ہم اس مقام کو بھی پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ مثبت رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کے زوال کی تمنا کرنے اور ان کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے کوشش کر کے اپنے آپ کو ان کی سطح تک لانے اور پھر ان سے بھی آگے بڑھنے کو اپنا ٹارگٹ بنا کر اخلاص کے ساتھ مسلسل جدوجہد کر کے منزل پر پہنچنے ضرورت ہے۔
استاد نے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی بغیر کوئی بات کئے بلیک بورڈ پر چاک سے ایک لمبی لکیر کھینچ دی اور پورے کلاس کو مخاطب ہوکر کہا:
’’ تم میں سے کون ہے جو بلیک بورڈ پر موجود اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دے؟ ‘‘
استاد کے سوال کا جواب کلاس میں موجود طلباء میں سے کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ سوال ہی ایسا عجیب و غریب تھا۔
ساری کلاس سوچ میں پڑ گئی کیونکہ استاد نے ایک ناممکن بات کہہ دی تھی۔
کلاس کے سب سے ذہین طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا:
’’ استادِ محترم! یہ ناممکن ہے، لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے تھوڑا سا مٹانا پڑے گا جو چھوئے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا اور آپ نے چھونے سے منع کیا ہے‘‘۔
باقی طلبا نے بھی سر ہلا کر اس طالبعلم کی بات کی تائید کی اور کہا کہ چھوئے بغیر لکیر کو چھوٹا کرنا ممکن نہیں ہے ۔
استاد نے گہری نظروں سے طلباء کی طرف دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر چاک سے اس لکیر کے متوازی لیکن اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ اب پہلے والی لکیر چھوٹی نظر آ رہی ہے۔
استاد نے اس لکیر کو چھوئے بغیر، اسے ہاتھ لگائے بغیر اُسے چھوٹا کر دیا تھا۔
طلبا نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھ لیا تھا۔ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، دوسروں پر تنقید کئے بغیر، اُن کو بدنام کئے بغیر، اُن سے حسد کئے بغیر، اُن سے آگے بڑھ جانے کا ہنر انہوں نے چند منٹ میں سیکھ لیا تھا۔ انہیں آج پتا چل گیا تھا کہ اپنے آپ کو اخلاق میں، کردار میں اور عمل سے دوسرے سے آگے بڑھا لو تو تم خود بخود دوسروں سے بڑے نظر آنے لگو گے۔ دوسروں کو چھوٹا کر کے کوئی بڑا نہیں بن سکتا بلکہ خود بڑا ہوکر بڑا بن سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button