6ستمبر یوم دفاع پاکستان

بشارت فاضل عباسی
قوموں کی تاریخ میں کچھ لمحات وقار، عزت و توقیر اور فخر کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سلامتی اور استحکام کو دوام بخشنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ زندہ قومیں ان تاریخی لمحات کو زندہ و تازہ کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں 6ستمبر ایک روشن مثال ہے۔ اس دن کو ہر سال 6ستمبر کو یوم دفاع اور قومی دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے شہداء اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں پاک افواج نے پاکستانی عوام سے مل کر دشمن اور اپنے سے کئی گنا بڑے ملک بھارت کو شکست دی۔ جس میں ہماری افواج نے شہادتیں دے کر وہ تاریخ رقم کی جس کو قوم مدتوں یاد رکھے گی۔6ستمبر 1965ء کی شب بھارتی فوج جنگ کا اعلان کیے بغیر حملہ کر دیا تو آناً فاناً ساری قوم فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔ اس وقت کے صدر مملکت اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے ایمان فروز اور جذبہ سے لبریز قوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر ، پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے ’’ پاکستانیو ! اُٹھو لاالہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اور دشمن کو بتادو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ اس خطاب نے قوم کے اندر بجلیاں بھر دی تھیں۔ ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف کا اپنے ساتھیوں سمیت لاہور جمخانہ میں شراب پینے کے خواب کو مٹی میں ملا دیا۔ پاکستان ایئر فورس، آرمی، نیوی نی وہ کارنامے سر انجام دیئے جس کی مثال نہیں ملتی اور بڑے ملک کی افواج کو وہ دھول چٹائی جسے دشمن اب بھی یاد کرتا ہے۔ جنگوں کی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم دوئم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی سیالکوٹ کے ایک علاقے چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی جہاں طاقت کے نشے میں چور بھارتی فوج چھ سو ٹینک لے کر پاکستان میں داخل ہو گئے تھے۔ پاکستان فوج کی زبردست جوابی کارروائی نے دشمن کے 45ٹینک تباہ کر دئیے اور کئی ٹینک قبضے میں لے لیے تھے۔ اسی طرح پانچ فیلڈ گنیں قبضہ میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے گئے۔ جنگ کا پانسہ پلٹتا دیکھ کر بھارتی فوجی حواس باختہ ہو گئے اور ٹینک چھوڑ کر فرار ہونے لگے تو پاک فوج نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے علاقے میں کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ اسی لیے چونڈہ کے مقام کو بھارتی ٹینکوں کے لیے ٹینکوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور میں پاک فوج کی 150 سپاہیوں کی ایک کمپنی نے 12گھنٹے تک ہندوستان کی ڈیڑھ ہزار فوج کو روکے رکھا اور ہماری پچھلی فوج کو دفاع مضبوط کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ لاہور میں ایک اور جنگی محاذ پر میجر عزیز بھٹی پہرا دے رہے تھے۔ وہ اس وقت لاہور سیکٹر کے علاقے برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔ میجر عزیز مسلسل پانچ دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے اور بالآخر 12ستمبر 1965ء کو بھارتی ٹینک کا گولہ چھاتی پر کھایا اور جام شہادت نوش کر گئے۔ جنگ ستمبر کے دوران بھارتی فوج نے 17دن میں 13حملے کئے ۔ ان کی افواج تعداد اور جنگی ساز و سامان کے حوالے سے کئی گناہ طاقتور تھی جبکہ پاکستانی فوج تعداد اور تیاری کے حساب سے بھارت سے بہت کم تھی لیکن پاکستانی جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر مسلسل 17دن تک دشمن کو لاہور میں داخل ہونے سے روکے رکھا اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ وطن کی ان بہادر سپوتوں میں کچھ کے کارنامے تو ایسی لازوال داستانیں ہیں کہ جنہیں رہتی دنیا تک جرات و بہادری کی جاویداں مثالوں کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایسے جرات مند شہیدوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے انہیں ملک کے سب سے عظیم فوجی اعزاز ’ نشان حیدر‘ سے نوازا گیا۔ یقیناً چھ ستمبر کا دن ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اس دن دشمن نے پاکستانی قوم اور اس کی مسلح افواج کی اولوالعزمی اور یقین کامل کو آزمانے کی غلطی کی۔ یہ دن ہمیں ان شہدا اور غازیوں کے لازوال حوصلے اور بہادری کے کارناموں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے قوم کی بے مثال حمایت کے ساتھ دشمن کی خام خیال برتری کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ یہ ان جواں مردوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے اپنی بے مثل شجاعت و دلیری سے جرات و استقلال کی نئی داستانیں رقم کیں جو ہمارے لئے باعث فخر و ترغیب ہیں۔ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ ستمبر میں پاکستانی مسلح افواج کی کامیابیاں دیکھ کر عالمی میڈیا اس کی طرف متوجہ ہوا، اور اس طرح پاکستان کی مسلح افواج کا نام عالمی میڈیا میں ایک طاقتور، انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ اور پروفیشنل فوج کے طور پر گونجنے لگا۔ سو لوئیس کرن ٹائم میگزین، نے 22ستمبر 1965ء کو لکھا: اس قوم کو شکست کون دے سکتا ہے جو موت سے کھیلنا جانتی ہو۔ چھ ستمبر کو ریاست پاکستان کا ہر افسر ، ہر سپاہی اور ہر سویلین اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ مادر وطن کی جغرافیائی سرحدوں اور ساحلوں کے دفاع اور خوشحال اور بہتر کل کے لیے اپنی بھر پور صلاحیتیں بروئے کار لائے گا۔ پاکستان نیوی: ستمبر1965ء میں نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر رہیں۔ اعلان جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ شروع کرائی گئی۔ پاکستان کے بحری، تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاکستان بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لیے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لیے گہرے سمندروں میں بھی یونٹ بھجوائے گئے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دوران پاکستان کا سامان تجارت لانے لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا۔ پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہے۔ ہندوستان کے تجارتی جہاز ’’ سرسوتی‘‘اور دیگر تو کتنے عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست و حفاظت کراچی کی بندرگاہ میں رہے۔ 7ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوز پی این ایس غازی بھی شامل تھی۔ ہندوستان کے ساحلی مستقر’’ دوارکا‘‘ پر حملہ کے لیے روانہ ہوئی۔ اس قلعہ پر نصب ریڈار ہمارے پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک رکاوٹ تھی۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20منٹ تک اس دوار کا پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا۔ پی این ایس غازی کا خوف ہندوستان کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ ہندوستانی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرات نہ کرسکا۔ ہندوستانی جہاز’’ تلوار‘‘ کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ بھی ’’ غازی‘‘ کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔ پاک فضائیہ: ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان جیسے قابل فخر سپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف ’’ ہوا باز گھوڑوں کو تیار کر رکھا تھا‘‘ جیسا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف تیار رہنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے ہوا باز7ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ ایک طرف سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کو مار گرایا۔ تو دوسری طرف سکواڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکواڈرن لیڈر منیر الدین اور علائوالد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کر دیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے ہندوستان کے جنگی ہوائی اڈوں کو اس طرح نقصان پہنچایا کہ ’’ہلواڑا‘‘ بنا دیا۔
(باقی صفحہ6پر ملاحظہ فرمائیں)
پاک فضائیہ نے میدان جنگ میں اپنی کارکردگی سے ثابت کر دیا کہ وہ فرمان قائد اعظمؒ کے مطابقSecond to None ہے۔ پاکستانی شہری:1965ء کی جنگ کا غیر جانبداری سے اور غیر جذباتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے سرکش اور خونخوار شکار کو پاکستان میں چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کر لیا۔ سب کچھ قائد اعظم کے بتائے اصول ( ایمان، اتحاد، نظم) پر عمل کرنے سے حاصل ہوا۔ کسی بھی زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہی اصول1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کا مرکز اور محور تھے۔ پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر طرح کا فرق مٹا کر اختلاف بھلا کر متحد ہو کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ تھا۔58سال بعد ملک پاکستان کو اس وقت 1965ء سے زیادہ خطرات ہیں۔ اُس وقت صرف بھارت نے ہم پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت پاکستان اندرونی اور چاروں اطراف سے دشمن کی لپیٹ میں ہے۔ ملک میں معاشی و سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں شہید ہونے والے جوانوں کو خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کرنے کا طریقہ یہ بھی ہے۔ ان کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے ملک کی عوام اور فوج مل کر یہ عہد کریں کہ ملک کے دفاع میں کوئی آنچ نہیں آنے دیںگے اور مل کر ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو نیست و نابود کر دیں گے۔ ملک کو معاشی، سیاسی، عدالتی اور ہر قسم کے بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔