تازہ ترینخبریںپاکستان

مئی 2023 سے قبل نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے: چیف جسٹس

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترامیم کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مئی 2023 سے قبل نیب ریفرنسز واپس لیے جانے کو ’سنجیدہ معاملہ‘ قرار دیا ہے۔

سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ بیرون ممالک سے باہمی قانونی تعاون کے ذریعے شواہد لیے جاتے ہیں جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’بیرون ممالک سے حاصل کردہ شواہد کی کیا قانونی حیثیت ہے؟‘ وکیل نے جواب دیا کہ ’دفتر خارجہ کے ذریعے بیرون ملک سے شواہد لیے جاتے ہیں اور تصدیق کا ایک پورا عمل ہوتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کہ ’پاکستان کے قانون میں بیرون ملک سے قانون معاونت کی گنجائش کتنی ہے؟‘ وکیل نے جواب دیا کہ پاکستانی قانون میں بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے۔‘

’ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پر مبنی فہرست ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے۔ ہمارے پاس جمعے کی وجہ سے آج ساڑھے بارہ بجے تک کا وقت ہے۔‘

چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو ساڑھے بارہ بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیر کو وہ کچھ وقت لیں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پیر تک وقت نہیں تحریری طور پر معروضات دے دیں ہم دیکھ لیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب کی زیرِ حراست ملزم کو دباؤ میں لا کر پلی بارگین کرنے کا تاثر موجود ہے۔ ’سندھ میں ایک کیس کی مثال موجود ہے، اس کیس میں پلی بارگین کر کے رقم طے کی گئی بعد میں تمام اثاثوں کا دوبارہ تخمینہ لگایا گیا۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ترامیم کے بعد پلی بارگین کے تحت اقساط میں وصول کی گئی رقم بھی واپس کرنا ہوگی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کے بھی بنیادی حقوق ہیں، کیا ملزم کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری نہیں؟‘

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فوجداری قانون میں تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، عوام ہمارے سامنے تو تب آئے گی جب ان کے حقوق متاثر ہوں گے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کی ترامیم اس انداز سے کی گئیں کہ ملزم اب پراسیکیوٹ نہیں ہو سکے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ الزام لگا رہے ہیں کہ نیب ترامیم سے ریاست ملزم کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے؟‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’کیا یہ نیب ریگولیٹری پر ترامیم کے ذریعے قبضہ ہے۔ ’کیا جو نیب کا ملزم ہے وہ قانون بنائے گا، کیا نیب کا ملزم قانون بنا کر بتائے گا کہ اس کے خلاف کارروائی کیسے ریگولیٹ ہو؟

جواب دیں

Back to top button