
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیس آج مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ نیب رپورٹ آگئی آج مقدمہ مکمل کریں گے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ آج سماعت کے دوران نیب نے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والے ملزمان کی تفصیلات اور رواں سال نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات جمع کرا دی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رولنگ دیتے ہوئے نیب ترامیم کیس آج مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ آج جمعہ مبارک ہے اور ہمارے پاس دوپہر ساڑھے 12 بجے تک کا وقت ہے۔ عدالت کے پاس نیب ریفرنس واپس بھجوانے سے متعلق فہرست آگئی ہے۔ آج کیس کو مکمل کریں گے۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیر تک وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل پیر کو دلائل کیلیے 30 منٹ کا وقت چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پیر کو شاید بینچ دستیاب نہ ہو۔ عدالتی چھٹیاں ہیں، میں اپنی بات نہیں کر رہا لیکن ججز چھٹی کرنا پسند کرتے ہیں اس لیے کوشش ہے کہ کیس کو آج مکمل کریں تاہم پیر کو وقت دینے سے متعلق آپ کو بتاتے ہیں۔
اس سے قبل سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، ایم ایل اے کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی۔
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان سے کہا کہ آپ نے کل کہا تھا ایم ایل اے کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی۔ قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمارے فوجداری نظام میں سزا کا تناسب 70 فیصد سے بھی کم ہے، ان میں سے بھی بہت سارے مقدمات اوپر جا کر سیٹل ہو جاتے ہیں، ہم لا اینڈ جسٹس کمیشن میں یہ سب ڈیٹا دیکھتے ہیں اور یہ ڈیٹا قابل تشویش ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کل یہاں بہت کہا گیا کہ نیب تحقیقات پر اربوں روپے لگے، اربوں روپے نیب پر لگتے پھر ایم ایل اے کے ذریعے انہیں شواہد منگوا کر دیے جاتے، اٹارنی جنرل کس اتھارٹی کے ذریعے نیب کے لیے ایم ایل اے بھیجتے رہے، یہ سب کر کے بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزا کی شرح 70 فیصد سے کم ہے اور ان میں سے بھی کئی مقدمات اوپر جاکر آپس میں طے ہو جاتے ہیں۔ ریاست کا بنیادی کام ہی انصاف دینا ہوتا ہے لیکن قتل کے مقدمات میں 30 سے 40 فیصد لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔
وکیل نے کہا کہ کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونک انہیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے۔
اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل شروع ہوئے اور انہوں نے کہا کہ سیکشن 21 جی ایم ایل اے کے ذریعے شواہد حاصل کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان شواہد کی کوئی تصدیق بھی کروائی جاتی ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دفتر خارجہ کے ذریعے شواہد لیے جاتے اور تصدیق کا ایک پورا عمل ہوتا ہے