
پاکستان میں پیٹرول کی قیمت میں محض نصف ماہ کے دوران 35 روپے کے بڑے اضافے نے مہنگائی سے ستائے لوگوں کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 15 اگست کو عالمی سطح پر برینٹ خام تیل کی قیمت 85.08 ڈالر تھی جو یکم ستمبر کو 87.01 ڈالر ہے۔ یعنی عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اتنا رد و بدل نہیں ہوا ہے اور پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس حالیہ اضافے کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط، روپے کی بے قدری اور حکومتی ٹیکسز سے جوڑا جا رہا ہے۔
گذشتہ شب کیے گئے حکومتی اعلان پر لوگوں کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ نگران حکومت نے پیٹرول پر ٹیکس بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کر دیا ہے جبکہ اس پر 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صارفین ٹیکس کی مد میں پیٹرول پر 85 روپے فی لیٹر ادا کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر حماد اظہر نے ردعمل دیا کہ ’ڈالر بھی 305 اور پیٹرول بھی۔ مارچ 2022 سے اب تک کتنا کچھ بدل گیا۔ جس طرف معاملات جا رہے ہیں الیکشن 90 کی بجائے 60 دن میں کرانا چاہیے۔ نگران نمونے بھی پی ڈی ایم کی طرح کسی کام کے نہیں۔ ملک کو فوری بے یقینی اور عدم استحکام سے نکالنا ہوگا ورنہ معاشی اور سیاسی افراتفری کا خطرہ ہے۔‘
شمہ جنیجو لکھتی ہیں کہ بجلی کے بلوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور اب پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے غریب کو مزید کچل دیں گے۔
تجریہ کار عاصمہ شیرازی نے پیشگوئی کی ہے کہ اس سے ’مہنگائی کا اور طوفان برپا ہو گا۔‘
جبکہ شہر بانو نامی صارف کی تجویز ہے کہ اگر عوام احتجاج کے لیے ’سڑک پر نہیں نکل سکتے تو یہ گاڑیاں، یہ موٹر سائیکل، یہ رکشے ایک دن کے لیے سڑکوں پر ہی کھڑے کر کے چلے جائیں