تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

مسلمان مفکر کون ہے جس نے پہلی بار درست کیلنڈر بنا کر دنیا کو حیران کر دیا ؟

عبدالرحمن ارشد :

ہم بات کر رہے ہیں مسلم مفکر عمر خیام کی , عمر خیام کا پورا نام ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشا پوری ہے۔ خیام کا مطلب ہے "خیمہ بنانے والا” ۔

عمر خیام کے بارے میں متعدد سوانح نگاروں نے اس کا سال پیدائش 408 ھ یا 410 ھ لکھتا ہے اور سال وفات کے متعلق بھی کوئی فیصلہ کن بات نہیں کی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس نے 526ھ میں وفات پائی۔ عمر خیام علم ہیت اور علم ریاضی کا بہت بڑا فاضل تھا۔ ان علوم کے علاوہ شعرو سخن میں بھی اس کا پایا بہت بلند ہے اس کے علم وفضل کا اعتراف اہل ایران سے بڑھ کر اہل یورپ نے کیا۔

فلسفہ پر خیام کی پانچ معلوم تصانیف موجود ہیں اور اس کی شاعری میں بھی بیشتر فلسفیانہ موضوعات موجود ہیں’ تاہم اس امر کا تعین کرنا ممکن نہیں کہ کائنات کے بارے میں اس کا تصور کیا تھا۔

عمر خیام ایک فلسفی تھا جو خوشیوں کوترستا رہا۔ وہ یونانی علوم کاحامی اور بو علی سینا کی تعلیمات کا پیروکار تھا۔ وہ اپنے عہد کا سب سے بڑا آزاد خیال مفکر تھا۔ وہ انتھک کام کرتا تھا۔ بہت اکھڑ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ سخت طبیعت کا مالک تھا۔ حافظہ بلا کا تھا، ایک مرتبہ اس نے ایک کتاب کو سات مرتبہ پڑھنے کے بعد لفظ بہ لفظ نقل کر دیا تھا۔

بدقسمتی سے ، ان کے بارے میں معلومات کافی نہیں ہیں ۔مگر دستیاب معلومات کے مطابق بچپن اور جوانی میں عمر خیام کی سوانح حیات اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ نیشا پور میں رہتے تھے۔ ان کے اہل خانہ کے بارے میں معلومات محفوظ نہیں ہیں۔

سنہ 1970 میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے جبکہ سنہ 1980 میں ایک سیارچے (3095) کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔

سلجوقی سلطان ملک شاہ کے کہنے پر انھوں نے جو کیلنڈر تیار کیا اسے جلالی کیلنڈر کہا جاتا ہے اور جو ایک زمانے تک رواج میں رہا اور آج کا ایرانی کلینڈر بھی بہت حد تک اسی پر مبنی ہے۔ جلالی کیلنڈر شمسی کیلنڈر ہے اور سورج کے مختلف برجوں میں داخل ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رائج انگریزی یا گریگورین کیلنڈر سے زیادہ درست ہے اور اسے آج تک سب سے زیادہ درست کیلنڈر کہا جاتا ہے۔

عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کا باعث ان کی رباعیاں بنیں۔

ان کی رباعیوں کا ترجمہ شاید سب سے زیادہ ہوا ہے اور دنیا کی تقریباً تمام تر بڑی زبانوں میں ہوا ہے۔ اردو میں تو بہت سے لوگوں نے ان کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے

خیام کہ خیمہ ہای حکمت می دوخت

در کوزہ غم فتادہ ناگاہ بسوخت

مقراض اجل طناب عمرش بہ برید

دلال قضا بہ رائگانش بفروخت

(خیام جو کہ علم و حکمت کے خیمے سیتا تھا وہ غم کے پیالے (بھٹی) میں اچانک گر گیا اور جل گیا۔ موت کی قنیچی نے جب اس کی عمر کی ڈور کاٹی کہ قضا و قدر کے دلال نے اسے بے مول ہی فروخت کر دیا)

عمر خیام کی چند رباعیاں ملاحظہ فرمائيں:

گویند مرا چو سرباحور خوش است

من می گویم کہ آب انگور خوش است

این نقد بگير و دست ازان نسیہ بدار

کاواز اہل شنیدن از دور خوش است

شوکت بلگرامی نے اس کا منظوم ترجمہ مئے دو آتشہ میں اس طرح پیش کیا ہے

زاہد دیوانے خلد اور حور کے ہیں

عاشق میخوار آب انگور کے ہیں

لے جام شراب، بول واعظ کے نہ سن

چھوڑ ان کا خیال ڈھول یہ دور کے ہیں

بہر حال یہ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں صوفیوں کے یہاں اردو اور فارسی میں بھی بیت اور ربا‏عی کہنے کا رواج رہا ہے۔ عمرخیام کی ایک رباعی یہاں پیش کرتا ہوں جس کی جھلک آپ کو بہت سے اردو اشعار میں نظر آئے گی۔

آورد بہ اضطرابم اول بہ وجود

جز حیرتم از حیات، چیزی نفزود

رفتیم، بہ اکراہ، ندانیم چہ بود

زین آمدن و بودن ورفتن مقصود

(پہلے میں اضطراب کے ساتھ پیدا ہوا اور پوری زندگی میں حیرت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ بہ حالت مجبوری یہاں سے لے جائے گئے اور یہ بھی معلوم نہ سکا کہ آنے، رہنے اور جانے کا مقصد کیا تھا۔

جواب دیں

Back to top button