Column

کیا عمران خان جلد رہا ہو پائیں گے؟

رفیع صحرائی
سیاست بڑا صبر آزما کھیل ہے۔ یہ کھیل کھلاڑی کے حوصلے اور صبر کو بار بار آزماتا ہے۔ کبھی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا کر کھلاڑی کی آزمائش کرتا ہے اور کبھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا کر اس کا حوصلہ آزماتا ہے۔ سیاست توقعات کا کھیل ہے جس میں بہت سے نتائج غیرمتوقع بھی نکل آتے ہیں۔ یہاں زیرو سے ہیرو اور ہیرو سے زیرو بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہ شطرنج سے بھی پیچیدہ کھیل ہے۔ ہر چال سوچ سمجھ کر اور مخالف کے متوقع ردِعمل کو سامنے رکھ کر چلنا پڑتی ہے۔ کامیاب سیاستدان وہی ہے جو شکست کھانے کے بعد گھبراتا نہیں ہے بلکہ اپنی شکست کو جیت میں بدلنے کے لئے اپنی شکست کی وجوہات پر غور کرتا ہے۔ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے اور دوبارہ جیت کے لئے بھرپور پلاننگ کے بعد میدان میں اترتا ہے۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ وہ ڈوبتے رہے، ابھرتے رہے، ابھر ابھر کر ڈوبے اور ڈوب ڈوب کر ابھرے۔ انہوں نے اپنی کسی ناکامی کو جی کا روگ نہیں بنایا بلکہ ناکامی میں سے کامیابی کا راستہ نکالا۔
عمران خان کو سیاست میں آئے رُبع صدی ہو چلی ہے۔ آغاز کے بارہ تیرہ سال وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائے مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ اس وقت سیاست میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف قدآور شخصیات تھیں۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی تیسری قوت کا ابھرنا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ 2011میں عمران خان کی مقبولیت کی رفتار میں تیزی آنا شروع ہو گئی۔ مینارِ پاکستان پر منعقدہ جلسہ ان کی سیاست میں سنگِ میل ثابت ہوا۔ پھر 2014کے دھرنے نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ مقبولیت کے ساتھ ساتھ انہیں قبولیت کی سند بھی مل گئی۔ 2016میں پاناما میں سے اقامہ نکلا جو نوازشریف کی سیاست کو نگل گیا۔ بے نظیر بھٹو بہت پہلے شہید ہو چکی تھیں۔ میاں نوازشریف کی تاحیات نااہلی کے بعد بظاہر عمران خان کے لئے راستہ صاف کر دیا گیا تھا لیکن خدشہ تھا کہ نواز شریف اگر 2018 کے الیکشن کی انتخابی مہم خود چلائیں گے تو ان کی پارٹی الیکشن جیت سکتی ہے چنانچہ نوازشریف کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ عمران خان اس کے باوجود حسبِ توقع کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ جہانگیرترین کا جہاز چلا، ق لیگ، ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کے علاوہ شیخ رشید کو عمران خان کا اتحادی ہونے کا شرف ملا اور یوں عمران خان برسرِ اقتدار آ گئے۔
اگر عمران خان کے دورِ حکومت کا جائزہ لیا جائے تو ساڑھے تین سال میں انہوں نے ملکی تاریخ کے سب سے بھاری قرض لئے۔ مہنگائی اتنی بڑھی کہ پی ٹی آئی کہ کارکن بھی بددل ہو کر عمران خان کا دفاع کرنا چھوڑ گئے۔ عمران خان نے تمام ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی۔ اس دوران انہوں نے اپوزیشن کی تقریباً تمام لیڈرشپ کو جیلوں میں ڈال دیا اور تواتر کے ساتھ ان کا میڈیا ٹرائل جاری رکھا۔ سب کا خیال تھا کہ وہ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں بدل کر انتقام کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران انہوں نے جب منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نواز شریف کو دھمکی آمیز انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ واپس آ کر جیل میں تمہارا اے سی اور پنکھا اتروائوں گا تو سننے والوں نے اس لہجے اور دھمکی کو پسند نہیں کیا تھا۔ رانا ثنا ئاللہ پر پندرہ کلو ہیروئن ڈلوانا اور انہیں مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالنے کی دھمکیاں دینا بھی ان کا نامناسب کام تھا۔ اپنے مخالفین کے نام بگاڑ بگاڑ کر جلسوں میں لینا اور انہیں تضحیک کا نشانہ بنانا بے شک انہیں لطف دیتا ہوگا مگر ان کے سیاسی مخالفین کے لئے یہ بڑا تکلیف دہ تھا۔
وقت ایک چلتا پہیہ ہے۔ اوپر کی سائیڈ نیچے اور نیچے کی سائیڈ نے اوپر آنا ہی ہوتا ہے۔ وقت کا پہیہ گھوما تو تخت نشین مجرم اور مجرم تخت نشین بن گئے۔ اقتدار سے محرومی عمران خان کی سیاست کا اصل امتحان تھا۔ ان کے لئے یہ صورتِ حال غیرمتوقع اور نئی تھی۔ جن مشیروں پر عمران خان بھروسہ کرتے تھے وہ ان سے مخلص نہ تھے۔ جو مخلص تھے انہیں وہ اپنے اقتدار کے دنوں میں ہی خود سے دور کر چکے تھے۔ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والوں نے عمران خان کو غلط مشورہ دے کر قومی اسمبلی سے اپنے ایم این ایز کے استعفے دلوا دیئے۔ فرق معمولی ووٹوں کا تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت انتہائی کمزور تھی۔ کوشش کر کے اقتدار دوبارہ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے استعفے دے کر حکومت کو مضبوط کر دیا۔ خان نے غیردانشمندانہ فیصلہ کر کے خود کو اناڑی ثابت کر دیا۔ اس کے بعد انہی مشیروں کے مشورے پر انہوں نے جلد الیکشن لینے کی خاطر پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں کی اپنی حکومتیں ختم کر کے اپنا وزن خود ہی کم کر لیا۔ خان اناڑی تھا۔ سامنے منجھے ہوئے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں بزورِ قوت چھین کر خان کو بالکل ہی بے دست و پا کر دیا۔ عمران خان کوشش کے باوجود الیکشن نہ لے پائے حتیٰ کہ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال ایکسٹرا زور لگانے کے باوجود بھی صرف صوبہ پنجاب میں الیکشن نہ کروا سکے۔ اگر عمران خان قومی اسمبلی سے استعفے دینے اور اپنی صوبائی حکومتیں ختم کرنے کی غلطیاں نہ کرتے تو آج فیصلہ سازی میں ان کی مرکزی حیثیت ہوتی۔ راجہ ریاض کی بجائے ان کی مشاورت سے نگران حکومتیں بنتیں۔ مگر وہ مخالفین کے بچھائے جال میں مسلسل پھنستے چلے گئے۔ انہوں نے خود کو ریڈ لائن قرار دینے کی غلطی کر کے اپنی حکومتوں کے بعد پارٹی کی تباہی کی بنیاد بھی رکھ دی۔ لیڈر گرفتار ہوتے ہی آئے ہیں۔ اس میں انہونی کیا ہے۔ مخالفین نے ریڈ لائن والی بات سے بھی پورا فائدہ اٹھایا اور پولیس کے ذریعے خان کی گرفتاری کا تاثر دے کر پی ٹی آئی کے ورکرز کے ہاتھوں پچاس سے زائد پولیس والے زخمی کروا لئے۔ پی ٹی آئی ورکرز نے غلیلوں اور پٹرول بموں کا خوب استعمال کیا۔ عمران خان اور ورکرز فخر سے سینہ چوڑا کر رہے تھے کہ ہم نے حکومت کو شکست دے دی ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ تو محض ایکٹر تھے۔ انہوں نے پتلیوں کی طرح حکومت کے ہاتھوں میں پکڑی ڈوری کے اشاروں پر محض رقص کیا ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کو دنیا بھر میں ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر متعارف کروا دیا گیا۔ اور پھر عمران خان نے اپنی بے پناہ مقبولیت کے زعم میں 9مئی کر دیا۔ جس نے انہیں سیاسی طور پر تنہا کر دیا۔ اپنوں نے دھڑا دھڑ ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور انہیں ریڈ لائن قرار دینے والے ورکرز کان لپیٹ کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اس وقت عمران خان جیل میں ہیں۔ اب وہ کسی کی ریڈ لائن نہیں رہے۔ انہیں جیل میں 9×11کی ایک کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے۔ اٹک جیل ویسے بھی بہت سخت ہے۔ یہاں بی کلاس کی سہولت موجود نہیں۔ ان کی کوٹھڑی میں ہی اوپن واش روم ہے۔ ٹونٹی میں پانی گدلا آتا ہے۔ بجلی بار بار جاتی ہے۔ دن کو مکھیاں اور چیونٹیاں ستاتی ہیں۔ رات کو دیگر حشرات ان کی کوٹھڑی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ یہاں تین سال کی قید کاٹ رہے ہیں۔ ان کی شریکِ حیات بشریٰ بی بی کی ان سے ملاقات کروا دی گئی ہے جس کے لئے انہیں پہلے آدھا گھنٹہ اور پھر ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کروایا گیا تاہم وکلا ء کو عمران خان سے ملنے کی اجازت اس روز نہ مل سکی۔ عمران خان کی فوری ضمانت کی درخواست رد ہو چکی ہے۔ جبکہ نیب میں ان کے خلاف قائم توشہ خانہ کیس اور القادر ٹرسٹ کیس میں بھی ان کی ضمانت خارج ہو چکی ہے۔ اب اگر موجودہ کیس میں عمران خان کی ضمانت ہو بھی جاتی ہے تو دوسری کسی کیس میں انہیں گرفتار کر لیا جائیگا۔ ان کے خلاف تو قریباً دو سو کیس موجود ہیں جن میں انہوں نے ضمانتیں لے رکھی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب عمران خان جلدی جیل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ انہیں ایک، ایک دن میں نو، نو ضمانتیں مل جایا کرتی تھیں۔ لگ تو یہی رہا ہے کہ باری باری وہ ضمانتیں کینسل ہوتی رہیں گی اور عمران خان ایک کے بعد دوسرے کیس میں گرفتار کئے جاتے رہیں گے۔ ایک وقت تھا کہ جب انہیں آئندہ قائم ہونے والے مقدمات میں بھی پیشگی ضمانت مل جایا کرتی تھی۔ اب ہوائوں کا رخ تبدیل ہو چکا ہے۔ جیل میں ان کا قیام کافی طویل لگ رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ آئندہ الیکشن کے دوران بھی وہ جیل سے باہر نہ آ سکیں۔
جیل میں عمران خان کو یکسوئی اور تنہائی میسر ہے۔ انہیں اپنی سیاسی جدوجہد، اقتدار کے حصول اور پھر اس سے محرومی کے تمام واقعات پر غور کرنا چاہئے۔ اپنی غلطیوں، مشیروں کے مشوروں اور مخالفین کی چالوں کو ذہن میں لا کر حالات کا تجزیہ کرنا چاہئے۔ جیل کی سختیاں ان کے لئے نئی ہیں۔ انہوں نے شہزادوں جیسی زندگی بسر کی ہے۔ اب انہیں بہادری اور پامردی سے حالات کی سنگینی کو برداشت کرنا ہو گا۔ ان کے سیاسی مخالفین بھی مہینوں اوربرسوں جیلوں میں رہی ہیں۔ عمران خان کا یہ پہلا امتحان ہے۔ یقین وہ بہادر بھی ہیں اور ثابت قدم بھی۔ انہیں جھکانا یا توڑنا آسان نہیں ہے۔ اگر وہ پامردی سے یہ آزمائش کا وقت گزار گئے تو اقتدار میں ایک مرتبہ پھر ان کی واپسی ہونا ناممکن نہیں۔ یہ واپسی ایک ہیرو کی واپسی ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button