سابق وزرائے اعظم کب کب گرفتار ہوئے؟

عریشہ ریحان
پاکستان میں وزارت عظمیٰ پر رہنے والے افراد کو گرفتار اور قید کئے جانے کی ایک تاریخ موجود ہے۔ ہفتے کو اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونے پر مجرم قرار دیا جس کے فوری بعد پنجاب پولیس نے عمران خان کو زمان پارک لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا۔ یہ گزشتہ 3 ماہ کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کی دوسری گرفتاری ہے۔ اس سے قبل انہیں 9مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ عمران خان گرفتار ہونے والے یا مقدمات کا سامنا کرنے والے پہلے سابق وزیر اعظم نہیں ہیں۔ پاکستان میں وزارت عظمیٰ پر رہنے والے افراد کو گرفتار اور قید کئے جانے کی ایک تاریخ موجود ہے۔
جنوری 1962ء: حسین شہید سہروردی پاکستان کے پانچویں وزیر اعظم تھے ( ستمبر 1956ء تا اکتوبر 1957ء)۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی توثیق سے انکار کر دیا تھا۔ ان پر پہلے الیکٹیو باڈیز ڈسکوالیفیکیشن آرڈر ( ای بی ڈی او) کے تحت سیاست کرنے پر پابندی عائد کی گئی اور بعد ازاں جولائی 1960ء میں ان پر ای بی ڈی او کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ جنوری 1962ء میں انہیں 1952ء کے سیکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت ریاست مخالف سرگرمیوں کے من گھڑت الزامات کے تحت گرفتار کرکے کسی مقدمے کے بغیر کراچی کی سینٹرل جیل میں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔
ستمبر 1977ء : ذوالفقار علی بھٹو اگست 1973ء سے جولائی 1977ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ ستمبر 1977ء میں انہیں 1974ء میں ایک سیاسی مخالف کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ انہیں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی نے اس بنا پر رہا کیا کہ ان کی گرفتاری کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔ لیکن 3دن بعد ہی مارشل لا ریگولیشن 12کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ اس ریگولیشن کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں جو سلامتی، امن و امان، یا مارشل لا کے بلا روک ٹوک چلنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہو۔ اس قانون کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ بلآخر ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی اور انہیں 4 اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی۔
اگست 1985ئ: بے نظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم رہیں ( دسمبر ئ1998 تا اگست 1990ء اور اکتوبر 1993ء تا نومبر 1996ء)۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت (1977ء۔1988ئ) میں بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر رہیں۔ وہ اگست 1985ء میں اپنے بھائی کے جنازے میں شرکت کے لیے پاکستان پہنچیں اور 90دن تک گھر میں نظر بند رہیں۔
اگست 1986ئ: بے نظیر بھٹو کو کراچی میں یوم آزادی کے موقع پر ایک ریلی میں حکومت کی مذمت کرنے پر گرفتار کیا گیا۔
مئی 1998ء: لاہور ہائی کورٹ کے احتساب بینچ نے بے نظیر بھٹو کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔
جون 1998ء: پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بے نظیر بھٹو کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔
جولائی 1998ء: احتساب بینچ نے بے نظیر بھٹو کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔
اپریل 1999ء: احتساب بینچ نے کسٹم فراڈ سے نمٹنے کے لیے رکھی گئی ایک سوئس کمپنی سے کِک بیکس لینے کے جرم میں بینظیر بھٹو کو 5 سال قید کی سزا سنائی اور عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیا۔ اس وقت بینظیر بھٹو ملک میں موجود نہیں تھیں، بعد ازاں اس سزا کو ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
اکتوبر 1999ء: احتساب بینچ نے ایسَٹ ریفرنس کیس میں عدم حاضری کی بنیاد پر بینظیر بھٹو کے دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔
ستمبر 2007ء: 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جلا وطن کئے جانے کے بعد نواز شریف وطن واپس لوٹے۔ ان کی واپسی پر اسلام آباد ایئرپورٹ کو سیل کر دیا گیا تھا۔ واپسی کے چند گھنٹے کے اندر ہی انہیں گرفتار کرلیا گیا اور 10سالہ جلاوطنی کے باقی 3سال پورے کرنے کے لیے سعودی عرب کے شہر جدہ بھیج دیا گیا۔
نومبر 2007ء: بینظیر بھٹو کو پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر لطیف کھوسہ کے گھر ایک ہفتے کے لیے نظر بند کر دیا گیا تاکہ انہیں جنرل مشرف کی آمرانہ حکومت کیخلاف لانگ مارچ کی قیادت سے روکا جائے۔
جولائی 2018ء: قومی احتساب بیورو کی جانب سے نواز شریف کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور 10سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ نواز شریف کو دو ماہ بعد اس وقت رہا کیا گیا جب عدالت نے ہائی کورٹ کی جانب سے حتمی حکم آنے تک ان کی سزا کو معطل کیا۔
دسمبر 2018ء: نواز شریف کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا اور ان کے خاندان کی سعودی عرب میں ایک سٹیل ملز کی ملکیت کے حوالے سے مقدمے میں 7سال قید کی سزا سنائی گئی۔ نومبر 2019ء میں انہیں علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ وہ اس کے بعد سے پاکستان واپس نہیں آئے ہیں۔
جولائی 2019ء: پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے شاہد خاقان عباسی جنوری 2017ء سے مئی 2018ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ 19جولائی کو انہیں 12رکنی نیب ٹیم نے گرفتار کیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2013ء میں وزیر پیٹرولیم ہوتے ہوئے ایل این جی کی درآمد کے اربوں روپے کے ٹھیکے میں مبینہ کرپشن کی ہے۔ انہیں 27فروری 2020ء کو ضمانت ملنے پر اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا۔
ستمبر 2020ء: منی لانڈرنگ کے حوالے سے نیب کیس میں لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے پر موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو 28ستمبر کو گرفتار کیا گیا۔ انہیں تقریباً 7ماہ بعد لاہور کی کوٹ لکھپت سینٹرل جیل سے رہا کیا گیا۔
مارچ 2023ئ: جج کو دھمکی دینے اور توشہ خانہ تحائف کے حوالے سے جاری کیسز میں پیش نہ ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے دو علیحدہ وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری روکنے کے لیے زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پارٹی کارکن جمع ہوگئے۔ اس دوران کارکنوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پر تشدد تصادم ہوا جس میں سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس فائر کی۔
مئی 2023ء: 9مئی کو عمران خان کو القادر یونیورسٹی ٹرسٹ سے متعلق کرپشن کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا۔ دو دن بعد سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔
اگست 2023ء: القادر ٹرسٹ کیس میں اپنی گرفتاری اور رہائی کے تقریباً 3ماہ بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کو پنجاب پولیس نے لاہور کے علاقے زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات چھپانے پر عمران خان کو ( جو عدالت میں موجود نہیں تھے))3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ اس موقع پر عمران خان کے وکلا بھی عدالت میں موجود نہیں تھے ۔
( بشکریہ ڈان نیوز )