Column

دغا دغا وئی وئی

سیدہ عنبرین
ہر شخص کا اپنا ہیرو اور اپنا ولن ہوتا ہے، اسی طرح ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایک سیاہ دن اور ایک روشن دن ہوتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ 5جولائی 1977کو الٹا گیا، ان کی حکومت ختم کردی گئی، پیپلز پارٹی کیلئے یہ سیاہ دن تھا، پھر بھٹو کو پھانسی دی گئی تو یہ دوسرا سیاہ دن ٹھہرا، عرصہ دراز بعد بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو پیپلز پارٹی کیلئے ایک روشن دن تھا۔ دوسری اور تیسری مرتبہ کا اقتدار جس روز ملا وہ بھی روشن دن تھے۔ بے نظیر کو دو مرتبہ اقتدار سے رخصت ہونا پڑا تو یہ دن بھی سیاہ دن قرار پائے۔ جناب نواز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو یہ دن ان کے لئے، ان کے خاندان اور ان کی پارٹی کیلئے روشن دن تھے، یہی معاملہ دوسری مرتبہ وزیراعظم بننیں اور تیسری مرتبہ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر روشن دن تھا۔ 12اکتوبر 1999کو پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کی پھر تیسری مدت میں انہیں پانامہ عرف اقامہ میں منصب سے ہٹایا گیا تو یہ دن سیاہ دن ٹھہرے۔2018میں عمران خان نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو یہ دن ان کے لئے روشن دن تھا، معزول ہوئے اور اب انہیں توشہ خانہ کہیں میں سزا سنا دی گئی ہے، تو یہ دن اب اسی مناسبت سے سیاہ دن سمجھے جائیں گے۔ یہ مقدمہ جس انداز سے آگے بڑھا اس سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ مقدمے کو اسی طرح غیر سنجیدہ انداز میں لڑا جارہا ہے، جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل میں طرز عمل دیکھنے میں آیا، قتل کے مقدمے کو سیاسی مقدمے کے طور پر لیا گیا، نتیجہ ان کی پھانسی کی سزا کی صورت سامنے آیا، توشہ خانہ کیس میں الزام چوری، معاملات کو اخفا میں رکھنا اور آمدن کو اپنے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنا تھا لیکن اس مقدمے کو سیاسی رنگ دے کر تسلسل کے ساتھ وقت ضائع کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر اسے اس انجام تک پہنچایا گیا جس میں عمران خان کو سزا سنا دی گئی، درجن بھر وکلا اسلام آباد اور قریباً اتنے ہی لاہور میں ان کے موقف کی ترجمانی کیلئے مصروف نظر آئے، سوئے اتفاق جو جناب نواز شریف کو سزا سے نہ بچا سکے، وہ جناب عمران خان کو بھی نہ بچا سکے بلکہ دونوں کو پس دیوار زنداں پہنچانے میں کامیاب رہے، کہنے والے کہتے ہیں سینئر قانون دان خواجہ حارث دونوں مقدمات میں ہار گئے جبکہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وکیل مقدمہ نہیں ہارتا بلکہ موکل مقدمہ ہارتا یا جیتتا ہے، بات کو کسی بھی انداز میں لے لیں وکلا ٹیم کا طرز عمل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، خان کے وکیل خواجہ حارث اس وقت عدالت کے روبرو پہنچے جب بارہ بج چکے تھے، دلائل کیلئے دیا گیا وقت ختم ہوچکا تھا اور فیصلہ لکھوایا جارہا تھا۔ اُنہوں نے عذر پیش کیا کہ وہ رات دیر سے سوئے صبح تاخیر سے بیدار ہوئے، عدالت اس عذر کو کیوں تسلیم کرتی، پس اسے تسلیم نہ کیا گیا، عدالتیں کسی بھی ظل الٰہی کے بیدار ہونے کا انتظار نہیں کرتیں، توشہ خان کیس میں ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنا تھی، اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرتا تھا، لیکن اسے گڑیا گڈے کے کھیل کے طور پر کھیلا گیا، جس میں اکثر گڈے والے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہوکر گھر بیٹھ جایا کرتے تھے اور گڑیاں کی رخصتی سے قبل دونوں خاندانوں میں جھگڑا ہوجاتا تھا، مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو کہہ دیا
گیا’’میرے تحفے میری مرضی‘‘ میں انہیں بیچوں یا آگ لگائوں کسی کو اس سلسلے میں کچھ پوچھنے کا حق نہیں، کاش اس وقت احساس کرلیا جاتا کہ توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرنے کیلئے کچھ قواعد و ضوابط موجود ہیں، ان سے انحراف جرم ہے اور خطرناک ثابت ہوسکتا لیکن اس وقت اس سوچ کا پرچار کیا جارہا تھا کہ آئندہ الیکشن بھی ہم جیتیں گے بلکہ اس کے بعد یعنی 2028میں ہونے والا الیکشن بھی جناب عمران خان کی جیب میں ہے۔ غبارے میں ہوا بھرنے والے ہر دور، ہر زمانے اور ہر حکومت میں پائے جاتے ہیں اور یہی کچھ کرتے ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت کے زمانے میں ہوتا نظر آیا لیکن اس مرتبہ تو تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے گئے، غبارے میں اتنی ہوا بھر دی گئی کہ وہ آسمان سے چمٹا رہا، ہر کمال را زوال است، جو غبارہ کچھ دیر بلندیوں پر رہنے کے بعد زمین پر واپس نہیں ہوتا، تمازت بڑھنے سے اس کی ہوا نکلنا شروع ہوجاتی یا پھر وہ فضا میں ہی پھٹ جاتا ہے، کبھی تو پٹاخے کی آواز آتی ہے، کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ کے قریب ٹھس ہو تو بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہوتی۔ گرفتاری سے پہلے آخری شام تک خام خیالی نے دامن نہ چھوڑا کہ ملک بھر کے ستر فیصد عوام ساتھ ہیں، غوروفکر کی بات یہ تھی کہ ستر فیصد ممبران قومی و صوبائی اسمبلی بہت پہلے ساتھ چھوڑ چکے تھے، مگر پھر بھی تکیہ انہیں پتوں پر کیا جاتا رہا جو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ دغا بھی دے رہے تھے، ایک بہت پرانی پشتو فلم کے بول یاد آرہے ہیں، ہیروئن لپک لپک کر گاتی تھی، دغا دغا وئی وئی اُردو ترجمہ کچھ یوں ہے، یہ شخص توبہ توبہ۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

Back to top button