صدر مملکت اور سزائے موت کی اپیلیں

امتیاز عاصی
سانحہ باجوڑ پر ہر آنکھ آشکبار ہے۔ شہید ہونے بچے والدین کے پیارے اور ہم سب کے دلارے تھے۔ قرآن عظیم نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے اور قاتلوں کی سزا جہنم ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک چار عشروں سے زائد عرصہ سے دہشت گردی کا شکار ہے باوجود کوششوں کے دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ افواج پاکستان کے بہادر سپوت اور عوام آخر کب تک جانوں کی قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ تعجب ہے دہشت گردوں کا نشانہ اسکولوں اور دینی مدارس کے بچے ہوتے ہیں۔ جے یو آئی کے کنونشن میں دہشت گردی کا مقصد ملک میں سیاسی اور مذہبی منافرت پھیلانا ہے۔ باجوڑ اور افغانستان کا صوبہ کنٹر آپس میں ملے ہوئے ہیں درمیان میں ایک پہاڑ ہے۔ ظاہر ہے دہشت گردوں کی آمد افغانستان سے ہوئی ہو گی۔ دہشت گردی کے آئے روز واقعات سے ضروری ہو گیا ہے صدر مملکت جناب عارف علوی سزائے موت پانے والے دہشت گردوں کی رحم کی اپیلوں پر بلا تاخیر فیصلہ کریں۔ چاروں صوبوں سے دہشت گردی میں ملوث ملزمان کو سزا یاب ہونے کے بعد ساہیوال کی ہائی سیکورٹی جیل منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں ان کی نگرانی کرنے کے لئے محکمہ جیل خانہ جات کے عملے کے ساتھ خفیہ اداروں کے اہل کار اور رینجرز تعنیات ہیں۔ دہشت گردوں کو ان کے لواحقین سے ملاقات کے لئے ہفتہ میں دو روز مقرر ہیں۔ عام جیلوں کے قیدیوں کی طرح دہشت گردوں کو چہل قدمی کے لئے باہر نہیں نکالا جاتا بلکہ وہ اپنے اپنے سیلوں میں بند رہتے ہیں۔ شیخ اسامہ بن لادن کیس میں ملوث ڈاکٹر شکیل آفریدی بھی یہیں بند ہے۔ پنجاب حکومت نے قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر میانوالی میں بھی ایک ہائی سیکورٹی جیل تعمیر کی ہے جہاں ہائی پروفائل قیدیوں کو رکھا جائے گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا گیا تھا جس کے بعد یورپی یونین کے دبائو کے باوجود کوئی حکومت سزائے موت کو ختم نہیں کر سکی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی کے فلور پر موت کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کا اعلان کیا تاہم اسمبلی میں مطلوبہ ارکان کی تعداد نہ ہونے سے موت کی سزا کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں سزائے موت پر عمل درآمد رکا رہا لیکن سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد موت کی سزا پانے والوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ملک کی تاریخ میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں ریکارڈ قیدیوں کو پھانسی دی گئی۔ ساہیوال کی ہائی سیکورٹی جیل میں اس وقت ساڑھے تین سو دہشت گرد ہیں جن میں پونے دو سو موت کی سزا کے منتظر ہیں۔ عجیب تماشا ہے ہمارا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور موت کی سزائوں کے منتظر قیدیوں کی اپیلیں ایوان صدر میں زیر التواء ہیں۔ گو صدر مملکت کو آئین کے آرٹیکل 45کے تحت موت کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کا اختیار حاصل ہے لیکن صدر علوی نے ابھی تک کسی کو سزائے موت کو ختم نہیں کیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں گجر خان سے تعلق رکھنے والے سزائے موت کے قیدی راجا عزیز کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدلا گیا ورنہ کوئی صدر سزائے موت کے قیدیوں کی رحم کی اپیلوں کو منظور نہیں کر سکا۔ پرویز مشرف کے دور سے پہلے سزائے موت کی سزا عمر قید میں بدلنے کے بعد قیدی زیادہ سے زیادہ چھ سال میں رہا ہو جاتے تھے۔2001میں جنرل پرویز مشرف نے قیدیوں کی سزائوں میں معافی دینے کا سلسلہ بند کر دیا جس کے بعد مذہبی تہواروں پر صدر مملکت کی طرف سے ملنے والی معافیوں کا اطلاق قتل اور دہشت گردی کے مجرمان پر نہیں ہوتا ۔1997میں صدر مملکت رفیق تارڑ نے تمام قیدیوں کو پانچ سال معافی دے دی جس کا فائدہ ہزاروں قیدیوں کو ہوا۔ چند ماہ پہلے صدر عارف علوی نے مرحوم صدر رفیق تارڑ کی تقلید کرتے ہوئے بلا امتیاز قیدیوں کی سزائوں میں پانچ سال معافی دے دی جس کا فائدہ پنجاب کی جیلوں میں پندرہ ہزار قیدیوں کو ہوا لیکن جنرل پرویز مشرف دور کے معافیوں پر پابندی ابھی تک برقرار ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں کی سزا عمر قید میں بدل جانے کے باوجود انہیں کم از کم بیس سال تاریخی طور پر جیلوں میں رہنا پڑتا ہے۔ یورپی یونین ہر سال سزائے موت کے عالمی دن کے موقع پر حکومت پاکستان پر موت کی ختم کرنے کے لئے دبائو ڈالتی ہے جس میں ابھی تک اسے کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔ مذہبی حلقوں کے دبائو کے پیش نظر اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت پاکستان میں موت کی سزا کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ختم کرنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ بھٹو دور سے پہلے سزائے موت ختم ہونے کی صورت میں چودہ سال قید کی سزا دی جاتی تھی۔ عمر قید کی سزائوں کا سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا ۔ تعجب ہے بلوچستان اور کے پی کے اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی آشیرباد حاصل ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کا افغان حکومت کو علم نہ ہو۔ ہماری حکومت افغانستان کی طالبان حکومت سے ہر طرح کا تعاون جاری رکھے ہوئے ہے اس کے باوجود وہاں کی حکومت ٹی ٹی پی سے تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کی حکومت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نے باہم مل کر امریکی فوجوں کا مقابلہ کرکے انہیں افغانستان سے واپس جانے پر مجبور کیا لہذا تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ دہشت گرد آئے روز کہیں نہ کہیں اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عدالتوں سے موت کی سزا پانے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ سے اپیلوں کو مسترد ہونے کے باوجود دہشت گردوں کو جیلوں میں رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ وقت آگیا ہے حکومت پاکستان بغیر کسی مصلحت کے موت کی سزا پانے والے دہشت گردوں کو پھانسی دے تاکہ جن جن خاندانوں کے لوگ دہشت گردی کا نشانہ بنے ان کی اشک اشوئی ہو سکے۔