معاشی انگڑائی

محمد مبشر انوار(ریاض)
کسی بھی ریاست کے مستحکم ہونے کا بنیادی معیار ایک طرف اگر اس ریاست کی دفاعی صلاحیت ہے تو دوسرا اہم ترین جزو اس کی مضبوط معیشت تصور ہوتی ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آتے ہی ،اپنی ہمہ جہتی اٹھان سے ساری دنیا کے لئے ایک استعارہ بن گیاتھا اور بیرونی دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ ایک الگ ملک حاصل کرنے کے بعدیہاں کے شہری بیرونی دنیا پر بوجھ کی بجائے،کارآمد قوم یک صورت سامنے آئی ہے۔گو کہ سیاسی چپقلشوں اور آئے روز حکومتی تبدیلیوں سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی لیکن دوسری طرف اس کی معاشی ترقی بہرطور بخوبی جاری رہی اور اقوام عالم میںاس کی مصنوعات کی طلب بھی رہی اور اس کی مصنوعات کا ڈنکا بھی خوب رہا۔ جنرل ایوب کے دور میں پاکستان کی صنعتی ترقی کو مثالی قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بائیس خاندانوں کا ذکر بھی ماتھے پر کلنک کے ٹیکے کی مانند سجا نظر آتا ہے۔ اس کلنک کے ٹیکے کو اتارنے کے لئے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو منظر عام پر آئے اور محنت کشوں کو حقوق دلواتے دلواتے ،ایک طرف محنت کشوں کو فرائض سے غافل کر گئے تو دوسری طرف سرمایہ کاروں/صنعتکاروں میں شدید خوف وہراس پھیلا گئے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محنت کشوں کے ایک مخصوص طبقے نے ملکی صنعت کو یرغمال بنانا شروع کر دیا اور یوں صنعتی ترقی کے زوال کی بنیاد رکھ دی گئی۔ تاہم یہ دور بہت زیادہ نہیں چل سکا اور محض پانچ برس کے قلیل عرصہ میں بھٹو کو سیاسی میدان سے رخصت کر دیا گیااور بھٹو کے رخصت ہوتے ہی،پاکستانی معیشت کو صنعت و حرفت کی بجائے اغیار کی چاکری کے ذریعے ڈالر کمانے کا راستہ دکھا دیا گیا،جو ہنوز جاری ہے۔بہرکیف ایسا بھی نہیں کہ ریاست میں موجود صنعتی جال ایک دن میں لپیٹا جا سکے لہذا پاکستانی ہنرمند تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے اپنے شعبہ جات میں کمر کسے رہے اور جس قدر ممکن ہو سکا،پاکستانی مصنوعات کو بیرون ملک برآمد کرتے رہے۔صنعت کو قائم رکھنے اور اس کو ترقی دینے کے کئی ایک دوسرے عوامل مشروط ہیں کہ جن کی بدولت صنعتی پہیہ مسلسل چلتا رہتا ہے،ان میں سب سے اہم اور بنیادی تو بہرطور ریاستی معاشی پالیسیاں اور ان کا تسلسل ہے،جبکہ دیگر عوامل میں امن و امان کی محفوظ صورتحال ہے،صنعت کو چلانے کے لئے انرجی اہم ترین جزو ہے کہ جس کی عدم موجودگی یا گرانی کی صورت میں صنعتی پہیہ چلنے سے قاصر ہے۔علاوہ ازیں!ہنرمند افرادی قوت کے ساتھ ساتھ خلوص نیت ایک اور اہم عنصر ہے لیکن افسوس کہ صنعتی پہیہ رکنے یا سست روی کا شکار ہوتے ہی مقامی افرادی قوت ہنر سے محروم ہو گئی ہے۔اکثریت کی خواہش یہ ہے کہ کسی بھی طرح روزگار کے حصول کے لئے بیرون ملک ہجرت کی جائے تا کہ اپنے زیرکفالت خاندان کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
یہاں بی نظیر اور نواز شریف کے کردار واضح ہیں کہ کس طرح ان دو رہنماؤں نے ملکی معیشت میں صنعتی پہئے کو سست/روکنے کا کیا انتظام کیا اور کیوں آج پاکستان بیرون ملک قرضوں کی دلدل میں اس قدر دھنس چکا ہے کہ اس کا سانس لینا بھی دشوار ہے۔ آمروں کے حوالے سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ان کے ادوار میں معاشی صورتحال گو نسبتا مستحکم رہی ہے لیکن اس استحکام کے پس منظر میں بہرکیف صنعتی ترقی سے زیادہ امریکہ کو دی جانے والی خدمات کے عوضانے کا کردار کہیں زیادہ رہا ہے۔چونکہ پاکستان میں حکمرانی کازیادہ دور آمریت کا رہا ہے اس لئے دور آمریت میں بالخصوص جبکہ سویلین حکمرانوں کی مجرمانہ غفلتوں کا بالعموم نتیجہ یہ رہا ہے کہ پاکستان میں صنعتوں کو روبہ عمل رکھنے کے لئے انرجی ہی میسر نہیں اور جو میسر ہے،اس کی قیمت اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ اس سے صنعت چلائی ہی نہیں جا سکتی۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہی کہ اکثر صنعتکارانرجی کے معاملے میں خودکفیل ہیں کہ انہوں نے اپنی صنعت کو متحرک و فعال رکھنے کے لئے ،سرکاری وسائل پر انحصار چھوڑ رکھا ہے جبکہ دوسری طرف چھوٹے سرمایہ کار/پیداواری یونٹ کے مالکان کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنی صنعت کو متحرک رکھ سکیں۔اس حوالے سے بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں نجی بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے معاہدے اور نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں کئے گئے معاہدوں نے گھریلو صارف کے لئے بھی بجلی کا استعمال اجیرن کر دیا ہے تو پیداواری یونٹ والے کس طرح اس سے مستفید ہو سکیں گے؟۔
حیرت تو وزیراعظم شہباز شریف پر ہوتی ہے کہ کس معصومیت بلکہ فنکاری سے عوام کو بتا رہے ہیں کہ ہم نے پن بجلی کے وسائل میسر ہوتے ہوئے بھی مہنگی بجلی کے منصوبے لگائے ہیں،نجانے یہ کیسے حکمران ہیں جنہیں رتی برابر عوام مشکلات کا احساس نہیں بلکہ اس قسم کے منافقانہ بیانات عوامی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ شنید یہ ہے کہ ترکی سے سولر انرجی کے پینلز درآمد کرنے میں بھی سلمان شہباز کے نام کی بازگشت ہے،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سولر پینلز کو بھی درآمد اور تنصیب پر اچھا خاصہ خرچ ہوتا ہے اور ان پینلز کی مدت بھی تقریبا 20۔25سال تک ہے جبکہ آبی وسائل سے نہ صرف سستی ترین بجلی بلکہ اربوں کھربوں ڈالر کا پانی،جس سے سارا سال زراعت کو سینچا جا سکتا ہے،خوراک میں خودکفیل ہوا جا سکتا ہے،اس کی طرف ابھی بھی توجہ صرف بیانات کی حد تک ہے۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہنگامی بنیادوں پر آبی وسائل کی تعمیر کی جاتی تا کہ ملکی ضروریات سے زیادہ سستی ترین بجلی کی پیداوار حاصل کرکے صنعت کو بجلی مہیا کی جاتی تا کہ ہمارے صنعتکار نہ صرف بیرون ملک اپنی مصنوعات کو عالمی قیمتوں کا مقابلہ کر پاتے اور ملک کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کرتے۔بدقسمتی سے اغیار کی لڑائیاں لڑتے لڑتے ہم اپنے ملک میں امن وا مان کی صورتحال تو مخدوش کر چکے ہیں بلکہ اپنے پڑوسیوں کو بھی پاکستان میں دخل اندازی کے وافر مواقع فراہم کر چکے ہیں،جن سے وہ مسلسل فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور سرمایہ کاری کے لئے موافق ماحول کو پنپنے ہی نہیں دیتے کہ ایک وقت میں یہاں ایک دن میں کئی بم دھماکے ہوتے تھے ،جنہیں عوام اور اداروں کی کوششوں سے ختم کر دیا گیا تھا لیکن ہوس اقتدار میں مشغول حکمرانوں نے ان کے لئے دوبارہ راستے کھول دئیے ہیں۔ چین کے نائب وزیراعظم کے حالیہ دورہ سے قبل ،جمعیت علماء اسلام کے کنونشن میں ہونے والے بم دھماکے سے پھر چین کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لئے محفوظ ملک نہیں ہے۔
تاہم ان تمام تر مشکلات کے باوجود،موجودہ حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ،تحریکانصاف کے دور میں نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا بلکہ صنعتی میدا ن میں بھی بوجہ کورونا دیگر ممالک کی پیداواری صلاحیت متاثر ہونے سے اضافہ ہوا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کئی دہائیوں کے تجربہ کار کم از کم اس شرح نمو کو ہی برقرار رکھ لیتے ،تو انہیں یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ،کپاس کی پیداوار میں زوال پذیر ہے کہ انہی حکمرانوں نے اپنی شوگر ملوں کو کپاس بیلٹ میں منتقل کرکے ،کپاس کی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے اور آج پاکستان کا موازنہ بنگلہ دیش سے کررہے ہیں۔اس پس منظر میں ایک طرف نئی معاشی پالیسی متعارف کروائی گئی ہے کہ جس کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دنیا بھر سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور دوسری طرف نج کاری کی ایسی کونسل کی بنیاد بھی رکھی گئی ہے کہ جس کے تحت نجکاری کی جائے گی،جس کی سربراہی وزیراعظم خود کریں گے۔شنید ہے کہ کھربوں کے ریاستی اثاثوں کی نجکاری بغیر کسی رکاوٹ کے کلیتا وزیراعظم کی صوابدید پر ہوں گے،یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ریاست پاکستان کے بچے کھچے اثاثہ جات کو بھی بیچ کر بیرون ملک راہ فرار اختیار کی جائے گی،کم از کم گزشتہ تجربات اسی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف ہمیشہ کی طرح مقتدرہ کی ضمانت پر توقع کی جا رہی ہے کہ ملک میں معیشت کو سنبھالنے کے لئے بڑے منصوبوں کا اجراء کیا جارہا ہے کہ جن کے تسلسل کی ضمانت مقتدرہ کی طرف سے دی گئی ہے۔مطلب یہ کہ حکومتوں کی تبدیلی سے اس پالیسی میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی اور یہ تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی،پاکستانی قوم بلا شک و شبہ اتنی اہل ضرور ہے کہ اگر اس پر اعتماد کیا جائے تو یہ غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے اور اگر واقعتا بظاہر متضاد پالیسیوں میں سے موخرالذکر پر عملدرآمد کی ٹھان لی جائے تو یہ پاکستان کی معاشی انگڑائی ثابت ہو سکتی ہے۔