ColumnM Riaz Advocate

عدلیہ تاریخ کے آئینے میں

تحریر :محمد ریاض ایڈووکیٹ
ضیاء الحق کا دور ہے اور نہ ہی ملک میں مارشل لاء لگا ہے۔ موجودہ دور کا ضیاء الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں، اگر ملک میں مارشل لاء جیسی صورتحال ہوئی تو ہم مداخلت کرینگے۔ یہ تاریخی اور سنہری روشنائی سے لکھے جانے والے الفاظ عزت مآب چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال کے ہیں جو انہوں نے ملٹری کورٹس کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران ادا فرمائے۔ اور یہ تاریخی الفاظ ادا فرمانے کے فورا بعد ملٹری کورٹس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔ معزز چیف جسٹس کی جانب سے مارشل لاء کے برخلاف مداخلت کا عندیہ دینے کی خبر سننے اور پڑھنے کے بعد پہلے پہل تو کانوں اور آنکھوں کو یقین ہی نہ آیا کہ یہ بیان پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے ہیں۔ حالانکہ اس وقت سپریم کورٹ کے پنجاب اسمبلی 14مئی انتخابات کے حکم نامہ اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 224(2)کی واضح اور صریحاً خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ کیا معزز چیف جسٹس یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ پنجاب اسمبلی انتخابات کے حکم نامہ کی عدم پیروی پر ابھی تک کیا ایکشن لیا گیا ہے؟ کیا واقعی عدلیہ مستقبل میں مارشل لاء جیسی صورتحال کے برخلاف مزاحمت کرے گی؟ بدقسمتی سے پاکستان کی آئینی تاریخ میں غیر منتخب آمروں کی حکومت وقت کے خلاف بغاوت و شب خون مارنے کو نہ صرف آئینی تحفظ فراہم کرنے والی ہماری عدلیہ ہی تھی بلکہ آئین پاکستان میں ترامیم کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرماتی رہی ہے۔ حوالے کے طور پاکستانی آئینی تاریخ کے مشہور و معروف مقدمات جو پاکستانی قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کے نصاب کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ مولوی تمیز الدین خان کیس میں، چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں عدالت عظمی نے پہلی آئینی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کی نہ صرف حمایت کی بلکہ نظریہ ضرورت جیسی نحوست ہمیشہ کے لئے پاکستانی آمروں کے لئے اُمید سحر بنا دی۔ اعلیٰ ترین عدالت کے اس فیصلے پر پاکستان کی تمام جمہوری جماعتوں کی طرف سے ہمیشہ سخت تنقید کی جاتی ہے اور اسے پاکستان میں غیر مستحکم جمہوریت کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی جانب سے حکومت وقت پر شب خون مارے جانے پر پاکستانی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ڈوسو کیس میں کیا، احسن طریقہ
سے آمر ایوب خان کی سال 1958بغاوت کو جواز قبولیت بخشا، جس کی مثال پاکستانی آئینی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی: سال1958میں ڈوسو کیس میں، پاکستان کی سپریم کورٹ نے ماہر قانون ہنس کیلسن کا نظریہ استعمال کیا ’’ کہ جب آئین کے بنیادی اصول ختم ہو جائیں اور اس کی جگہ ایک نیا نظام قائم ہو جائے تو انقلاب کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب انقلاب آئے گا تو پرانا نظام بدل کر نیا نظام آئے گا‘‘۔ عاصمہ جیلانی بمقابلہ حکومت پنجاب کیس جس میں عاصمہ جیلانی نے جنرل یحییٰ کی جانب سے ان کے والد ملک غلام جیلانی کی غیر آئینی و غیر قانونی گرفتاری کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی۔ اس کیس کے فیصلہ میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ مارشل لاء کبھی بھی آئین سے بالاتر نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ یحییٰ خان نہ تو فاتح تھے اور نہ ہی پاکستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور اس طرح انہیں غصہ کرنے والا قرار دیا گیا اور ان کے تمام اقدامات کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔ حیران کن اور مزیدار بات یہ ہے کہ جب عاصمہ جیلانی کیس کا فیصلہ جاری ہوا تو یحییٰ خان اقتدار میں نہیں تھے، یعنی مارشل لگانے والے جنرل یحییٰ کی حکومت ختم ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ نے جنرل
یحییٰ کیخلاف فیصلہ دیا۔ فیصلہ کے وقت ذوالفقار علی بھٹو مسند اقتدار پر براجمان تھے۔ سال 1977میں بیگم نصرت بھٹو بمقابلہ چیف آف آرمی سٹاف مقدمہ میں سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ضیاء الحق مارشل لاء کے نفاذ کو متفقہ طور پر درست قرار دیا۔ فیڈریشن آف پاکستان بمقابلہ سیف اللہ خان کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ مئی 1988میں جنرل ضیاء کی جانب سے محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی غیر آئینی تھی لیکن اس نے قومی اسمبلی کو بحال کرنے سے انکار کر دیا۔ احمد طارق رحیم بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان سال 1990صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58(2)(b)کے تحت قومی اسمبلی اور بینظیر بھٹو کی حکومت کو تحلیل کر دیا۔ تحلیل کے مذکورہ حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اکثریت سے قومی اسمبلی کی تحلیل کو برقرار رکھا۔ جنرل مشرف کے مارشل لاء کو شرف قبولیت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ بنام جنرل مشرف کیس میں کیا ہی خوبصورت فیصلہ دیا کہ :12اکتوبر 1999کو ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی جس کا آئین نے کوئی حل فراہم نہیں کیا اور ایک ماورائے آئین اقدام کے ذریعے مسلح افواج کی مداخلت ناگزیر ہو گئی، جس کی توثیق ریاستی ضرورت کے نظریے اور بیگم نصرت کیس میں مجسم سیلوس پاپولی سپریم لیکس کے اصول کی بنیاد پر کی گئی ہے، فیصلہ میں یہ بھی لکھا گیا کہ ریاستی ضرورت کے نظریے کو نہ صرف اسلام اور دنیا کے دیگر مذاہب میں تسلیم کیا گیا ہے۔ یہی نہیں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں نہ صرف جنرل مشرف کو تین سال تک برسر قتدار رہنے کا سرٹیفیکیٹ کیساتھ آئین پاکستان میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا۔ یاد رہے پاکستان کی آئینی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہماری اعلیٰ ترین عدالتوں نے غیر منتخب حکمرانوں کے غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کو شرف قبولیت بخشے بلکہ کروڑوں پاکستانی افراد کے منتخب وزرائے اعظم کو کبھی مسند اقتدار سے ہٹا نے اور ان کو سزائیں دلوانے خصوصا بھٹو جیسے عظیم سیاسی لیڈر کو پھانسی جیسی سزا دلوانے میں سہولت کاری کی خدمات بھی فراہم کیں۔ جس کا ثبوت سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا اعترافی بیان آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔ ماضی قریب میں پانامہ جیسے کمزور ترین مقدمہ میں تین مرتبہ کے وزیراعظم نواز شریف کو مسند اقتدار سے ہٹوا دیا گیا۔ جبکہ اس کے برعکس آمر مشرف کی آرٹیکل چھ، سنگین غداری مقدمہ میں سزائے موت کا فیصلہ سنانے والی عدالت کو ہی یک جنبش کالعدم قرار دے دیا۔ بہرحال اُمید ہی کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستانی عدلیہ واقعی ہر غیر آئینی اقدام کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو۔

جواب دیں

Back to top button