اقوامِ متحدہ کا اسمارٹ فونز پر پابندی کا مطالبہ

تحریر:رفیع صحرائی
لیجئے جناب! خبر یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے دنیا بھر کے اسکولوں میں اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں بین الاقوامی ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اسکولوں اور گھروں میں اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس یا لیپ ٹاپس کا بہت زیادہ استعمال طالب علموں کی توجہ بھٹکانے کا باعث بنتا ہے جس کے باعث ان کے سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے اسمارٹ فونز پر پابندی کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے ’’ درسی کتاب‘‘ کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ وہاں کئی سال سے ’’ ای لرننگ سسٹم‘‘ رائج ہے۔ ہمارے ہاں ابھی اس سسٹم کو رائج کرنے کے بارے میں صرف سوچا ہی جا رہا ہے۔ شاید کسی غیر ملکی این جی او یا یورپی ملک نے اس سلسلے میں اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کی حامی نہیں بھری۔ ہمارا تعلیمی نظام دہائیوں سے ’’ برائے فروخت‘‘ ہے اور ہر قیمت ادا کرنے والا پیسہ دے کر من مانی شرائط کے ساتھ اس میں تبدیلیاں کروا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز تجربات کی قربان گاہ پر چڑھا کر تعلیمی نظام کی اسلامی اور قومی شقوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ بات ہو رہی تھی اسمارٹ فونز پر پابندی کے مطالبے کی۔ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ نے دنیا بھر کے 200تعلیمی نظاموں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اب تک ہر 6میں سے ایک اسکول نے پہلے ہی اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں پہلے ہی تمام تعلیمی اداروں میں سرکاری طور پر اسمارٹ فونز کے ساتھ ساتھ سادہ فونز کے استعمال پر بھی پابندی عائد ہے حتیٰ کے اساتذہ صاحبان بھی دورانِ تدریس فون استعمال نہیں کر سکتے، لیکن عملی طور پر اس پابندی کا وہی حشر ہوتا ہے جو دیگر سرکاری احکامات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سیکنڈری کلاسز سے یونیورسٹی سٹوڈنٹس تک 90فیصد طلبہ کے پاس اسمارٹ فونز موجود ہوتے ہیں۔ اساتذہ میں یہ شرح 99فیصد ہے۔
اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ اس لئے کیا ہے کہ بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہو سکے اور وہ آن لائن بدزبانی سے بچ سکیں۔ اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافت کے ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موبائل فونز کا بہت زیادہ استعمال تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق موبائل فونز پر زیادہ وقت گزارنے سے بچوں کے جذباتی استحکام پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لئے مطالبہ کیا گیا کہ اسکولوں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی انسانی تعلیم کے لیے معاون سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
یونیسکو نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اثرات سے خبردار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کے سیکھنے اور معاشی افادیت کے حوالے سے مثبت اثرات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہر تبدیلی کو پیشرفت نہیں قرار دیا جا سکتا، ہر نئی چیز ہمیشہ بہتر نہیں ہوتی۔ عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل انقلاب میں متعدد مواقع چھپے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات پر بھی بات کی جا رہی ہے، ایسی ہی توجہ تعلیم کے شعبے پر بھی مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل Audrey Azoulayنے کہا کہ ’’ ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنے کے تجربے کو بہتر بنانے اور طالب علموں و اساتذہ کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے، مگر سب سے پہلے سیکھنے والوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، آن لائن رابطے انسانی تعلقات کے متبادل نہیں ہو سکتے‘‘۔ یہ بات سو فیصد حقیقت ہے کہ آن لائن رابطے انسانی تعلقات کے متبادل نہیں ہو سکتے۔ فون محض سہولت کے لئے ایجاد ہوا تھا ہم نے اسے لازمی حیثیت دے دی۔ زیادہ سے زیادہ اس کی حیثیت روزمرہ زندگی کے ایک حصے (Part of Life)کی ہو سکتی ہے مگر ہم نے اپنی زندگی کو فون کا ایک حصہ بنا دیا ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کو تعلیمی شعبے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو مفید بنانے اور اس کے نقصانات سے بچنے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے۔ کسی بھی چیز کا استعمال ایک حد تک ہی بہتر ہوتا ہے خواہ وہ جتنی بھی مفید ہو۔ آج انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا استعمال بے تحاشہ بڑھ گیا ہے۔ موبائل فون جو صرف کال کرنے یا سننے کے لئے ایجاد ہوا تھا اب منی کمپیوٹر کا روپ دھار چکا ہے۔ اس نے انٹرنیٹ کا استعمال بے تحاشہ بڑھا دیا ہے۔ کوئی ایک پیج یا سائٹ سرچ کریں تو اس سے ملتے جلتے ناموں کے سیکڑوں پیج یا ایپس کھل جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے جو اصل کام سے توجہ ہٹا کر غیرمتعلقہ دلچسپیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ یوں یوزر کا نہ صرف ٹائم ضائع ہوتا ہے بلکہ وہ اصل راستے سے بھٹک کر منزل سے بھی دور چلا جاتا ہے۔
طالب علمی کا زمانہ نوبلوغت اور جوانی کا ہیجانی دور ہوتا ہے۔ اس عمر میں جنسِ مخالف کی طرف طبعی رجحان فطری تقاضہ ہوتا ہے۔ اگر کھلی آزادی اور چھوٹ مل جائے تو راستہ بھٹکنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ یورپ جو انتہائی آزاد خیال معاشرہ ہے اس نے بھی حالات کی سنگینی کو بھانپ لیا ہے۔ وہاں طلبہ کے لئے انٹرنیٹ کا استعمال محدود کرنے کے طریقوں پر سوچ بچار ہو رہی ہے۔ ہمارا پاکستانی کلچر تو سو فیصد اخلاقیات اور مذہبی اقدار پر مشتمل ہے۔ ہمیں بھی صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک کرنا ہوگا۔ اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز میں تعلیمی اوقاتِ کار کے دوران اساتذہ اور طلبہ پر اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی لگانا ہو گی تاکہ تعلیمی عمل پوری یکسوئی کے ساتھ جاری رکھا جا سکے۔