Column

اسحاق ڈار ہی نگران وزیرِ اعظم ہوں گے

رفیع صحرائی

موجودہ حکومت کا جانا اب دنوں کی بات ہے۔ نگران وزیرِ اعظم کے نام کے سلسلے میں گزشتہ قریباً ایک مہینے سے مشاورت کاعمل جاری ہے۔ اس ایک مہینے کے دوران نصف درجن نام سامنے آئے اور ہر نام کے ساتھ ’’ آئندہ کا یقینی نگران وزیرِ اعظم‘‘ لکھ کر دعویٰ کیا جاتا رہا کہ یہ متفقہ اور منظورشدہ ہوں گے۔ سب سے پہلے تو جناب محسن بیگ کا نام سامنے آیا۔ ہمارے سیاسی مبصرین نے ان کے میرٹ پر ہونے کی گم شدہ کڑیاں تلاش کیں اور انہیں ہاٹ فیورٹ قرار دے دیا۔ پھر اس دوڑ میں نجم سیٹھی صاحب بھی شامل ہوئے تو ہوائوں کے ساتھ چلنے والے یہ دور کی کوڑی لائے کہ اسی وجہ سے جناب نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی کے عہدہ سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوئے تھے کہ انہیں نگران وزیرِ اعظم بننے کا اشارہ مل گیا ہو گا۔ اسی اثنا ء میں پتا چلا کہ آئی ایم ایف کی فرمائش پر جناب حفیظ شیخ نگران وزیرِ اعظم اور جناب رضا باقر نگران وزیرِ خزانہ ہوں گے۔ الیکشن دو سال کے لئے موخر کر کے سب کا کڑا احتساب ہو گا۔ نگران حکومت کا واحد کام ملکی معیشت کو سنبھالا دینا اور خزانے کو بھرنا ہو گا۔ لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کہ مسلم لیگ ن کو یہ سراسر گھاٹے کا سودا نظر آ رہا تھا۔ ٹیکنوکریٹس کی دو سالہ نگران حکومت کے بعد مسلم لیگ ن کے پاس الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے کے لئے کوئی پرکشش بیانیہ موجود نہیں ہونا تھا۔ دو سال کا عرصہ بہت طویل ہوتا ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہونا تھا۔ ممکن ہے ہوائوں کا رخ ہی تبدیل ہو جاتا اور میاں نواز شریف جن کے ہاتھ میں آج وقت کی باگیں ہیں دو سال بعد منظورِ نظر نہ رہتے۔ وہ تو پہلے ہی عمران خان کو ہٹا کر مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کے خلاف تھے کہ کانٹوں کا تاج تھا۔ مگر آصف علی زرداری کی دوربین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ عمران خان کو اگر اب نہ ہٹایا گیا تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ عمران خان یا جنرل فیض حمید طویل عرصے تک ملک پر حکمران بن جائیں گے اور جب یہ اقتدار چھوڑیں گے تو تب تک ممکن ہے پیپلزپارٹی اور ن لیگ قصہ پارینہ بن چکی ہوں۔ میاں نواز شریف کو آصف زرداری نے منا لیا۔ میاں نواز شریف کے خدشات درست تھے۔ شہباز شریف حکومت کو معیشت کے معاملات میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ شہباز شریف، اسحاق ڈار، آصف زرداری، بلاول بھٹو اور جنرل عاصم منیر کی مشترکہ محنت اور کاوشیں ہیں جنہوں نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ اس سلسلے میں چین، سعودی عرب اور یو اے ای کے تعاون کا بھی خصوصی کردار رہا ہے۔ ایسے میں نواز شریف کے لئے یہ ممکن نہیں کہ شہباز حکومت کے مشکل فیصلوں کی صورت میں بہت بڑی سیاسی قربانی دینے کے بعد وہ سیاست سے آئوٹ ہونے کا رسک لے سکیں۔ انہوں نے حفیظ شیخ اور رضا باقر فارمولے پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔ اسی اثنا ء میں سیّدہ جگنو محسن کا نام نگران وزیرِ اعظم کے طور پر گردش کرنے لگا مگر اسے زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔
اب اچانک جناب اسحاق ڈار کا نام سامنے آیا تو ایک ہلچل سی مچ گئی۔ جناب اسحاق ڈار کا نام میڈیا میں تو اچانک ہی آیا ہے مگر جناب آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان اس نام پر کئی روز سے بات چیت جاری تھی اور ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آصف زرداری نے بھی اسحاق ڈار کے نام کی منظوری دے دی ہے۔ ہماری موجودہ سیاست میں جناب آصف زرداری سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں۔ گرم و سرد چشیدہ ہیں۔ سیاست کی بھٹی میں جتنا وہ جلے ہیں باقی سیاستدانوں نے مل کر بھی اس قدر مصائب کا سامنا نہیں کیا۔ اب وہ کندن بن چکے ہیں۔ سیاست سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ ایک ماہر شاطر کی طرح ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد سیاست کی بساط پر چالیں چلتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کی صورت میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا دیوہیکل مخالف پہلوان میدان میں ہے جو مقبولیت کے لحاظ سے اس وقت تمام مخالفین پر بھاری ہے۔ اس مشترکہ دشمن کو مل کر ہی میدانِ سیاست سے باہر نکالنا پڑے گا۔ آپس کے اختلافات اسے تقویت دیں گے۔ اسی لئے تمام تر تحفظات کے باوجود دونوں پارٹیاں پوری کمٹمنٹ کے ساتھ ایک دوسرے کی معاون بنی ہوئی ہیں۔
سیاست میں کسی پر احسان نہیں کیا جاتا۔ سیاست میں سیاسی مفادات کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی ہے۔ آصف زرداری اور نواز شریف کی دوبئی میں طویل ملاقاتوں کے دوران بہت کچھ طے ہو چکا ہے۔ آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو وزیرِ اعظم بنوانا چاہتے تھے مگر اب وہ اس مشن سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ اس کے بدلے میں انہوں نے نواز شریف سے پنجاب میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے بات کی ہے۔ خصوصاً جنوبی پنجاب پر بہت کچھ طے ہو چکا ہے۔ ن لیگ ویسے بھی جنوبی پنجاب میں قدرے کمزور پوزیشن میں ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کو وہاں سپورٹ کرے گی۔ بدلے میں سندھ کی چند سیٹوں پر پیپلز پارٹی اس کے امیدواروں کو سپورٹ کرے گی۔ قمر زمان کائرہ، مخدوم احمد محمود، سید یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف سمیت پانچ قومی اسمبلی کی سیٹوں پر ن لیگ اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ ممکن ہے آگے چل کر یہ نشستیں بڑھ بھی جائیں۔ بہرحال یہ بات تقریباً طے ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ آئندہ الیکشن میں اپنی سیاسی بقا کے لئے نورا کشتی لڑیں گی اور الیکشن کے بعد مل کر حکومت بنائیں گی۔ ایسی صورت میں آصف زرداری کا جناب اسحاق ڈار کے نام کی منظوری دینا حیرانی کی بات نہیں۔
فیصل کریم کنڈی اور شیریں رحمان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ اسحاق ڈار کے بطور نگران وزیرِ اعظم نامزدگی پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ چند دن بعد ایک مزید پریس کانفرنس بھی ہو سکتی ہے جس میں بتایا جائے گا کہ مشاورت ہو گئی ہے اور جناب آصف زرداری کے تحفظات دور کر دیئے گئے ہیں۔
جہاں تک نگران وزیراعظم بننے کے معیار کا تعلق ہے تو وہ ایسا شخص ہونا چاہئے جس کی سیاسی وابستگی نہ ہو اورجس نے انتخابات میں بذاتِ خود حصہ نہ لینا ہو۔ نگران وزیرِ اعظم کا انتخاب منتخب وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر کریں گے۔
اسحاق ڈار کی سیاسی وابستگی تو ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر یہ ضرور ہے کہ انہوں نے آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لینا۔ جہاں تک اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت کی ضرورت ہے تو وہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اسحاق ڈار کے نام پر چیف آف آرمی سٹاف کو بھی اعتراض نہیں ہو گا۔ کیونکہ اسحاق ڈار نگران دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو بہتر انداز میں چلا لیں گے۔ وہ ٹیکنوکریٹ بھی ہیں اور اکانومسٹ بھی۔ ملکی معیشت کی مشکلات کو ان سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے۔ بظاہر ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ نواز شریف کے لئے وہ سب سے بہتر چوائس اس لئے بھی ہیں کہ خدشات کے مطابق اگر الیکشن کچھ عرصہ کے لئے موخر ہو گئے تو عملاً ملک پر نواز شریف کی حکومت ہی رہے گی۔ عمران خان نے اسحاق ڈار کی نامزدگی کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے قوم سے مذاق کے مترادف قرار دیا ہے مگر عمران خان تو کسی نام پر بھی راضی نہیں ہوں گے۔ چاہے سو فیصد شفاف الیکشن بھی کروا دیئے جائیں عمران خان ان کے نتائج قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے تو نجم سیٹھی پر بھی 35پنکچر لگانے کا الزام لگا دیا تھا۔ پھر اسے بیانیہ بنا کر بہت عرصہ اس پر قائم رہے اور بالآخر حسبِ عادت اسے سیاسی بیان قرار دے کر یوٹرن لے لیا۔ عمران خان سے نگران وزیرِ اعظم کے لئے مشاورت نہ تو آئینی تقاضہ ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ وہ قومی اسمبلی سے اپنی پارٹی کے ایم این ایز کے استعفے دلوا کر بے وزن ہونے کے بعد اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ اس لئے ان کی مخالفت صدا بصحرا ثابت ہو گی۔ ہاں ایک رکاوٹ ضرور پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر کسی سیاسی پارٹی یا عام آدمی کی طرف سے بھی اسحاق ڈار کی بطور نگران وزیرِ اعظم نامزدگی کو ان کی سیاسی وابستگی کی بنا پر عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تو صورتِ حال میں ڈرامائی موڑ آ سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button