ColumnRoshan Lal

دریائے ستلج میں سیلاب؟

تحریر : روشن لعل
گزشتہ کچھ دن سے پاکستانی میڈیا پر اس دریائے ستلج میں سیلاب کی خبریں گردش کر رہی ہیں جو اپنی بے آبی کے لیے مشہور ہے۔ بے شک دریا تباہ کن سیلابوں کا باعث بنتے رہتے ہیں مگر عمومی طور پر ان کے میٹھے پانیوں کو تہذیبوں کی آبیاری کا ذریعہ اور انسانوں کی خوشحالی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ دریائوں کی یہ تعریف اپنی جگہ سچ ہے مگر پاکستان کے ضلع قصور میں بھارت سے داخل ہونے والے دریائے ستلج کے ارد گرد آباد لوگ اسے زیادہ درست نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اس دریا کا اپنا پانی انہیں زرعی مقاصد کے لیے تو دستیاب نہیں ہوتا مگر برسات کے موسم میں سیلاب کی آفت بن کر انہیں متاثر ضرور کرتا رہتا ہے۔ ان دنوں بھی دریائے ستلج میں بھارت کی طرف سے چھوڑا گیا پانی سیلاب کا خطرہ بن کر قصور کے سرحدی دیہات کے لوگوں کے سروں پر منڈلا رہا ہے ۔ پاکستان کے دوسرے دریائوں میں بھی سیلاب آتا ہے مگر وہ شاید اس لیے زیادہ تکلیف دہ تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ ان دریائوں کا پانی صرف سیلاب ہی نہیں لاتا بلکہ عام دنوں میں زرعی معیشت کی تقویت کا باعث بھی بنتا ہے۔ دریائے ستلج کا پانی پاکستان کے لیے اب صرف تباہی کا استعارہ بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستانی علاقوں میں اب دریائے ستلج کے اندر صرف وہ پانی بہتا ہے جو سیلاب کا باعث بننے کی وجہ سے بھارت کی ضرورت نہیں ہوتا۔ سیلاب کا پانی کیونکہ کسی کی بھی ضرورت نہیں ہوسکتا اس لیے اسے پاکستانی علاقوں میں بہنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل دریائے ستلج پوری آب و تاب کے ساتھ چین کے علاقے تبت سے شروع ہو کر پنجند کے مقام تک بہتا تھا ۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والے پانی کی تقسیم کے تنازع نے اس دریا کی ساری آب و تاب ختم کردی۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان پانی کے تنازعہ کو1960 ء میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے حل کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو جن دریائوں کے پانی سے دستبردار ہونا پڑا ان میں راوی اور بیاس کے علاوہ دریائے ستلج بھی شامل ہے۔ دریائے ستلج گنڈا سنگھ بارڈر کے قریب پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور اس کے بعد تقریباً سات مقامات پر دوبارہ بھارت کی سرحد عبور کر کے واپس پاکستان میں آ جاتا ہے۔ بصیر پور کے قریب لالو گدر کا علاقہ وہ آخری مقام ہے جہاں دریائے ستلج آخری مرتبہ بھارتی سرحد عبور کر کے دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ لالو گدر سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد بھی دریائی ستلج کا سفر پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ حویلی لکھا پاکستان میں اور فاضلکا بھارت میں واقع ہیں۔ ان دونوں علاقوں کو تقسیم ہند سے قبل جو سڑک ملاتی تھی
اس کا نام حویلی لکھا فاضلکا روڈ تھا۔ یہ سڑک پاکستان اور بھارت میں اب بھی اسی نام سے موجود ہے۔ یہ سڑک جس مقام پر دریائے ستلج سے ملتی ہے وہاں سے دریا پاک بھارت سرحد سے فاصلہ بناتے ہوئے اپنا سفر جنوب مغرب کی طرف شروع کر دیتا ہے۔ اس کے بعد دریائے ستلج پاکستان کے اضلاع پاکپتن، بہاولنگر اور بہاولپور کے علاقوں کے درمیان اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں ضم ہو جاتا ہے۔
دریائے ستلج میں جب بھی سیلاب آتا ہے، اس کی وجہ بھارت میں واقع بھاکھڑا اور پونگ ڈیموں سے خارج کیا گیا پانی ہوتا ہے۔ بھاکھڑا ڈیم دریائے ستلج اور پونگ ڈیم دریائے بیاس پر بنایا گیا ہے۔ دریائے بیاس بھارتی اضلاع ترن تارن اور فیروز پور کے درمیان واقع ہریکے ہیڈ ورکس پر دریائے ستلج میں شامل ہوتا ہے۔ بھاکھڑا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1680 فٹ اور پونگ ڈیم میں 1390فٹ اونچائی تک ہے۔ بھارت میں بھاکھڑا اور پونگ ڈیموں کی مرمت ، دیکھ بھال اور ان ڈیموں میں پانی ذخیرہ اور خارج کرنے جیسے معاملات طے کرنے کے لیے ایک ادارہ بھاکھڑا بیاس مینجمنٹ بورڈ(BBMB) کے نام سے موجود ہے۔ دریائے ستلج پر بنایا گیا بھاکھڑا ڈیم بھارتی صوبے ہماچل پردیش کے ضلع بلاس پور میں واقع ہے۔ اس ڈیم سے خارج ہونے والا پانی دریائے ستلج میں بھارتی پنجاب کے اضلاع شہید بھگت سنگھ نگر ، لدھیانہ، جالندھر، موگا ، ترن تارن اور فیروزپورسے گذر کر گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پاکستان کے ضلع قصور میں داخل ہوتا ہے۔ بھاکھڑا ڈیم اور قصور کے درمیان حسینی والا ہیڈ ورکس بھارت میں وہ اختتامی مقام ہے جہاں بھارتی اہلکار آخری مرتبہ دریائے ستلج کے پانی کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔
دریائے ستلج پر بھارتی صوبے ہماچل پردیش میں بنائے گئے بھاکھڑا ڈیم سے متصل علاقوں میں 8جولائی 2023سے اگلے دو دن تک 282ملی میٹر بارش ہوئی۔ اس بارش کی کی وجہ سے بھاکھڑا ڈیم میںیکمشت دولاکھ کیوسک سے زیادہ پانی کی آمد ہوئی۔ جس وقت بھاکھڑا ڈیم میں ایک ساتھ دو لاکھ کیوسک پانی آیا اس وقت 1680فٹ اونچائی تک پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد والے اس ڈیم میں ذخیرہ کئے گئے پانی کی سطح ایک ساتھ پانچ فٹ اضافے کے بعد 1604فٹ سے1609ہوگئی۔ حالانکہ اس وقت ڈیم کو کنٹرول کرنے والے بھاکھڑا بیاس مینجمنٹ بورڈ کے ترجمان نے یہ کہا تھا کہ دریائے ستلج میں معمول سے زیادہ پانی نہیں چھوڑا جائے گا مگر بھارتی علاقوں میں دریائے ستلج کے پانی کا بہائو دو لاکھ بیس ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ ہماچل پردیش میں شدید بارش کیونکہ صرف بھاکھڑا ڈیم ہی نہیں بلکہ دریائے ستلج کے معاون دریا بیاس پر بنائے گئے پونگ ڈیم کے علاقوں میں بھی برسی تھی اس لیے بیاس میں بھی پانی کا بہائو معمول سے زیادہ ہو گیا۔ ان دونوں دریائوں کا سیلابی پانی بھارتی پنجاب کے35میں سے 19اضلاع کی خاص طور پر دیہی آبادی کو تباہ کرنے کے بعد حسینی والا ہیڈورکس سے گزر کر گنڈا سنگھ کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوا۔ بھارتی پنجاب میں ستلج اور بیاس کے پانیوں سے آنے والے سیلاب کی تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں املاک اور جانوروں کی ہلاکتوں کے ساتھ 38قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ ستلج کا بھارتی پنجاب میں آنے والا اونچے درجے کا سیلاب پاکستان میں داخل ہونے کے بعد نچلے درجے تک رہ گیا۔ نچلے درجے کا سیلاب حالانکہ تباہی کا باعث نہیں بنتا ، لیکن پاکستان میں کیونکہ لوگوں نے دریائے ستلج کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے وہاں کاشتکاری کرنے کے ساتھ رہائش گاہیں بھی تعمیر کر رکھی ہیں اس لیے وہ کم درجے کے سیلاب سے ہی متاثر ہوگئے۔
دریائے ستلج میں آنے والا حالیہ کم درجے کا سیلاب تو کسی بڑے نقصان کا باعث بننے کے بغیر ہی گزر گیا مگر اب بھی اس دریا میں شدید سیلاب کا خطرہ ٹلا نہیں ہے کیونکہ 1680فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھنے والے بھاکھڑا ڈیم میں چند دنوں کے اندر پانی کی سطح 1650فٹ تک پہنچ چکی ہے جبکہ مون سون کی بارشوں کا سلسلہ یہاں ستمبر کے وسط تک چلتا رہتا ہے۔ اگر ہماچل پردیش میں خدانخواستہ ایک مرتبہ پھر 8جولائی کی طرح شدید بارش برسی تو بھارت دوبارہ بھاکھڑا ڈیم سے لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں مزید سیلاب کا امکان مد نظر رکھتے ہوئے اس سے نمٹنے کی تیاریوں سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button