میرا ہیلمٹ کہاں ہے؟

تحریر : فیاض ملک
دنیا میں ٹریفک حادثات میں سالانہ تقریباً 12لاکھ لوگ مر جاتے ہیں جن میں زیادہ تعداد موٹر سائیکل کی سواری استعمال کرنیوالوں کی ہے، ہیلمٹ کا استعمال ہی صرف ایک واحد وجہ ہے جس سے موٹر سائیکل سے ہونیوالے حادثات سے لگنے والی سر کی چوٹ اور اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار جو ہیلمٹ کا استعمال نہیں کرتے وہ سر کی چوٹوں کی وجہ سے موت کے خطرے میں ہوتے ہیں مزید یہ کہ اس سے نا صرف ہسپتالوں پر بوجھ بڑھتا ہے بلکہ معذوری کی صورت میں انکے خاندان اور معاشرے کو بھی اسکی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ ہیلمٹ پہننے کے رجحان میں اضافہ کرنے کیلئے قوانین میں سختی لازمی ہیں، بہت سے مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہیلمٹ کے قوانین لاگو ہونے سے سر کی چوٹ اور اموات میں کمی ہوئی ہے اور ان قوانین کے ختم ہونے پر سر کی چوٹ اور اموات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں موٹر سائیکل عام استعمال ہوتی ہے، تقریبا ہر گھر میں ایک یا دو موٹر سائیکلیں موجود ہیں۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں موٹر سائیکل اتنی مقبول کیوں ہے؟، کیونکہ یہ بہت سستی پڑتی ہے، سڑک پر ٹریفک جام کی صورت میں آسانی سے ادھر ادھر نکالی جا سکتی ہے۔ گاڑی کے مقابلے میں پیٹرول بہت کم کھاتی ہے، اسکی مرمت کا خرچہ کم ہوتا ہے لیکن اگر موٹر سائیکل حادثے کا شکار ہو جائے تو اس کا نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے، ہلکی سی چوٹ سے لیکر موت تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ موٹر سائیکل اتنی خطرناک سواری ہے لیکن اس کے حادثات سے بچنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ صرف ایک ہیلمٹ پہن کر ہم موٹر سائیکل حادثے کی صورت میں اپنی موت کے امکانات 37فیصد اور سر پر چوٹ لگنے کے امکانات 69فیصد کم کر سکتے ہیں۔ پنجاب ایمرجنسی سروس کی ماہانہ رپورٹ میں حادثات کی تعداد دیکھ کر دماغ چکرا جاتا ہے۔ ہر ماہ تقریبا 30000سے زائد حادثات میں 300سے 400افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ سیکڑوں اپاہج ہو کر باقی ماندہ زندگی اذیت میں گزارتے ہیں۔ لاہور کا حادثات میں پہلا، فیصل آباد دوسرا اور ملتان کا تیسرا نمبر آتا ہے۔ سب سے زیادہ تعداد (69فیصد) موٹر سائیکل سواروں کی ہے۔ شہر کے چوک، چوراہوں پر میں نی جلدی جانا ہے، میں نے پہلے نکلنا ہے کی تگ و دو سے ٹریفک بلاک کر کے ایک دوسرے کا منہ دیکھنا اور بعض اوقات گالم و گلوچ کرتے گتھم گتھا ہونا، زوال پذیر معاشرے کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ خیر سے نوجوانوں کو آپ جتنا مرضی سمجھا لیں کہ بیٹا بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، مجال ہے وہ کسی کی سن لیں، آج کل کے بچے ہیڈ انجری سے اپنا سر کھلوا لیں گے، وہ ہیلمٹ نہیں پہنیں گے۔ آپ اس طبقے سے پوچھیں، بیٹا موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ کیوں نہیں پہنتے ہو، اکثریت کا جواب ہوتا ہے، ہیلمٹ پہنتے ہی ان کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے، پوری دنیا میں صرف ہمارے ملک میں ہی موٹرسائیکل پر ہیلمٹ پہننے سے بچوں کا دم گھٹتا ہے، کسی کو ہیلمٹ پہن کر گرمی لگتی ہے تو کسی سے ہیلمٹ پہن کر موٹرسائیکل ٹھیک طرح سے چلائی نہیں جاتی، ہم اپنی اس عادت سے نجانے کب جان چھڑا پائیں گے؟ اس بدبخت ڈنگ ٹپائو پالیسی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، کسی دوسرے ملک میں بنا ہیلمٹ موٹرسائیکل چلانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان کی سڑکوں پر موٹرسائیکل سواروں میں 100میں سے بمشکل سے 2فیصد لوگ ہی ہیلمٹ پہن کر سڑک پر اپنے سفر کو جاری رکھتی ہیں۔ 2004ء میں عالمی ادارہ صحت(WHO)نے ایک قرار داد پاس کی جس میں یہ کہا گیا کہ ترقی پذیر ممالک میں موٹر سائیکل اور دو پہیوں والی سواری پر ہیلمٹ کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ اس کیساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد A60/5 (2005)ٹریفک حادثات
کی روک تھام کیلئے ایک موثر پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ سی ٹی او لاہور کیپٹن ( ر) مستنصر فیروز شہر لاہور کو ایکسیڈنٹ فری سٹی بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ لاہور سٹی ٹریفک پولیس کی طرف سے ہیلمٹ قوانین پر سختی کروانے سے ہیڈ انجری کیسز کی شرح میں واضح کمی دیکھنے میں آ رہی ہے، سال 2022کے پہلے چھ ماہ کے دوران 263افراد ٹریفک حادثات کی نذر ہوئے تھے، سال 2023کے پہلے6ماہ کے دوران 193افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے، ہیلمٹ انفورسمنٹ مہم سے %35فیصد قیمتی جانوں کو بچا لیا گیا، سال 2022میں 479افراد قتل جبکہ 484افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوئے تھے، لاہور میں شرح اموات میں ٹریفک حادثات سرفہرست رہا، سال 2022میں 74فیصد موٹرسائیکل سوار حادثات کی نذر ہوئے، رواں سال 10لاکھ سے زائد موٹرسائیکل سواروں کیخلاف کارروائی کی گئی، ویسے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو برملا کہوں گا کہ جہاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کئے جانا چاہئیں، وہیں اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا پر ٹریفک قوانین کے متعلقہ روزانہ اور ہفتہ وار پروگرام، خصوصی ایڈیشن، کالمز کی اشاعت کی ترویج بھی کی جائے۔ اور خدارا، اس کا بالکل نہ سوچیں کہ لوگ کیا کہیں گے، آپ حادثے کا شکار ہو بھی گئے تو لوگ تو پھر بھی کچھ نہ کچھ کہتے رہیں گے لیکن آپ کچھ نہیں کہہ پائیں گے۔ اس لیے موٹر سائیکل پر سفر کرنا ہو تو پہلے پوچھیں، میرا ہیلمٹ کہاں ہے۔ موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ پہنیں تاکہ آپ حادثہ کی صورت میں اپنے سر کو محفوظ رکھ سکیں۔ قانونی پابندی کیلئے ثانوی مگر درحقیقت اپنی جان کے تحفظ اور اپنے اہل و عیال کے لئے ہیلمٹ ضرور پہنا کریں۔ یقین کیجئے، صرف ہیلمٹ پہننے سے تمام شہروں کے70فیصد حادثات کی شرح میں واضح کمی بشمول ہسپتالوں کے ڈاکٹروں، طبی عملہ اور ادویات و آلات کے سالانہ بجٹ میں کمی لانا ممکن ہو جائے گی۔