کہیں UAPریلوے منصوبہ بھی ناکام نہ ہو جائے؟

تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ
گزشتہ دنوں برادر اسلامی ملکوں ازبکستان، افغانستان، پاکستان (UAP)ریلوے منصوبہ کے مشترکہ پروٹوکول پر تینوں ممالک کے ریلوے و متعلقہ محکموں کے سربراہان نے دستخط کئے۔ اس موقع پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آج کا دن پاکستان اور خصوصاً افغانستان اور ازبکستان ریلوے کے لیے انتہائی اہم دن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ علاقائی روابط کا تاریخی دن ہے اور ہم نے اس کی بنیاد رکھ دی ہے۔ UAPریلوے پراجیکٹ نہ صرف شریک ممالک کے درمیان علاقائی، ٹرانزٹ اور دو طرفہ تجارت میں سہولت فراہم کرے گا بلکہ پورے خطے کو لوگوں کے درمیان بہتر روابط بھی فراہم کرے گا۔ یہ لائن مسافر اور مال بردار خدمات دونوں کو سپورٹ کرے گی، اور علاقائی تجارت اور اقتصادی ترقی میں حصہ ڈالے گی۔ منصوبے کے تحت ترمیز، مزار شریف، لوگر، خرلاچی روٹ کے ذریعے ازبکستان ریلوے کو پاکستان ریلوے سے جوڑنا ہے۔ ابتدائی منصوبے کے مطابق ان تینوں ملکوں کے درمیان 700کلومیٹر سے زائد طویل یہ ریلوے لائن ازبکستان کے علاقے ترمز سے ہوتی ہوئی مزار شریف اور لوگر آئے گی اور پھر وہاں سے یہ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم میں اختتام پذیر ہو گی۔ ایک اندازے کے مطابق منصوبہ 2027تک مکمل ہوجائے گا اور ٹرینیں سالانہ 30کروڑ میٹرک ٹن سامان لیجانے کے قابل ہوجائیں گی۔ بظاہر یہ منصوبہ اس خطے کی معیشت کے لئے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ لیکن اس خطے کی بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کے اس خطے میں امن نام کی فاختہ کو کبھی جی بھر کر سانس لینے کا موقع ہی میسر نہ آسکا۔ چاہے امریکی سربراہی میں وہ افغان جہاد کے نام پر لڑی جانے والی طویل ترین جنگ ہو یا پھر دہشت گردی خاتمہ کے نام پر لڑی جانے والی نام نہاد وار آن ٹیریر جنگ ہو۔ سال 1985میں پاکستان ، ایران اور ترکی کے سربراہان نی اقتصادی تعاون تنظیم کی بنیاد رکھی، جس کے بنیادی مقاصد میں خطے کی ترقی ، تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع کو فروغ دینا تھے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اس تنظیم میں افغانستان، آذربیجان، قازقستان، جمہوریہ کرغیز، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہوئے۔ مگر افسوس یہ تنظیم صحیح معنوں میں اپنے بنیادی مقاصد کو ابھی تک حاصل نہ کر پائی۔ کیونکہ ا س تنظیم کا اک لینڈ مارک ریلوے منصوبہ جس کا نام استنبول۔ تہران۔ اسلام آباد ریلوے تھا، جس کو سال 2009میں آزمائشی طور پر لانچ کیا گیا اور ٹھیک دو سال بعد 2011میں روک دیا گیا ، اور سال 2021 میں اس منصوبہ پری اک مرتبہ پھر پیش رفت ہوئی اور21دسمبر 2021کو اسلام آباد سے کارگو ٹرین 150میٹرک ٹن گلابی نمک لیکر روانہ ہوئی اور ایران سے ہوتی ہوئی ٹھیک چودہ دنوں بعد یعنی 4جنوری 2022کو ترکی کے شہر انقرہ پہنچی۔ اس کے بعد استنبول۔ تہران۔ اسلام آباد ریلوے کے تحت کسی ٹرین نے ان ملکوں کے درمیان کب سفر کیا ہو؟ کسی کو معلوم نہیں ہے؟ یاد رہے کہ استنبول۔ تہران۔ اسلام آباد منصوبہ کے تحت سڑک کے رستہ کارگو کنٹینرز کا کامیاب آزمائشی سفر بھی کیا جا چکا ہے اور کارگو کنٹینرز کا سفر اسلام آباد سے شروع ہوا اور دس سے زائد برادر اسلامی ملکوں سے گزرتے ہوئے استنبول ترکیہ میں اختتام پذیر ہوا۔ اس علاقہ کی بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ دہائیوں پہلے سے شروع کئے جانے والے روڈ اور ریلوے منصوبے آج تک پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ افغانستان کے جنگی حالات کی بدولت ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ بھی پایہ تکمیل نہ پہنچ سکا۔ حال ہی میں پاکستان چائنہ اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک کیساتھ ہم پاکستانیوں نے کیا سلوک کیا۔ چائنہ کی جانب سے پاکستان میں بننے والے منصوبوں کے اوپر ہماری سیاسی جماعتوں نے کس طرح سے کرپشن کے بیہودہ الزامات لگائے اور کس طرح سے ہماری عدلیہ، بیوروکریسی نے سی پیک منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکائے یہ بھی
تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ پاک، ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کا مستقبل کیا ہے ؟، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کا نہ ماضی تھا اور نہ ہی مستقبل نظر آرہا ہے۔ یہاں علاقائی ترقی کی بابت بننے والے منصوبوں کے ماضی کا تذکرہ کرنے کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں ہے بلکہ تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں خدانخواستہ ازبکستان، افغانستان، پاکستان ریلوے منصوبہ بھی تاریخ کا حصہ نہ بن جائے۔ کیونکہ گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصہ سے یہ علاقہ جات خصوصا افغانستان سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی کے واقعات، انتظامی اُمور میں بے جا عدالتی مداخلت، روایتی بیوروکریسی جیسے عوامل ہر قسم کے علاقائی ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی پر مشتمل سارک ممالک، چائنہ، روس اور روس سے ملحقہ اسلامی ممالک کی بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ ان ممالک کی معیشت کا انحصار امریکہ، یورپین ممالک کی مرہون منت ہے۔ آج بھی ان ممالک کو باہمی تجارت کے لئے امریکی ڈالر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کے لئے دبئی و دیگر ممالک کا سہار ا لینا پڑتا ہے ۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ یورپی یونین کے ممالک نے جنگ عظیم اول اور دوم میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن آج یورپی یونین کی عوام بغیر کسی روک ٹوک ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ پاکستان اور اسکے ملحقہ خطہ کے ممالک ایک دوسرے کو ڈرانے کے لئے اربوں ڈالر اسلحہ کی برآمد پر خرچ کر دیتے ہیں مگر انکی عوام کی اکثریت آج بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ممالک علاقائی ترقی کی خاطر اپنے دیرینہ و حل طلب مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک میز پر بیٹھیں ورنہ ہم جتنے مرضی منصوبوں پر دستخط کر لیں یہ کامیاب نہ ہو پائیں گے۔