ہمارے دروازے پر پہنچ گئے

سیدہ عنبرین
اللہ تعالیٰ نے پاکستان عطا کیا تو مغربی پاکستان کا دارالحکومت لاہور جبکہ مشرقی پاکستان کا دارالحکومت ڈھاکہ قرار پایا۔ مرکزی دارالحکومت پہلے کراچی بعد ازاں اسلام آباد منتقل ہوا، ملک کے بارے میں اہم ترین فیصلے مرکزی دارالحکومت میں کئے جاتے تھے، پاکستان ٹوٹنے کے بعد مرکزی دارالحکومت اسلام آباد ہی رہا لیکن صوبائی دارالحکومت وجود میں آئے، جب سے اب تک پاکستان کے بارے میں اہم فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ اب تو معاملات انتہائوں کو چھو رہے ہیں بادی النظر میں نہیں بلکہ درحقیقت اہم فیصلے امریکہ، لندن اور دبئی میں ہوتے نظر آتے ہیں، اس تناظر میں لندن اور دبئی کو آئینی طور پر تو پاکستان کا دارالحکومت قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن غیر علانیہ سب کچھ وہاں ہی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کسی بھی جماعت یا اتحاد کی حکومت ہو اسکی اپوزیشن کا ٹھکانہ لندن اور دبئی ہوتا ہے۔ لندن اور دبئی کی حکومتوں کے پاکستان میں ہر حکومت اور اپوزیشن سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہتے ہیں۔
جاری ایام میں بھی لندن اور دبئی پاکستانی سیاستدانوں کی سرگرمیوں کا مرکز ہیں، کبھی سیاسی جماعتوں کے سربراہ مل بیٹھتے ہیں کبھی شریک اتحادی وہاں اپنی فرمائش لیکر پہنچ جاتے ہیں کبھی اہم مہروں کو طلب کر کے اعتماد میں لیا جاتا ہے تاکہ جماعت میں جمہوریت کا تاثر قائم رہے، کبھی جماعتوں کے میڈیا سیل متحرک کر دیئے جاتے ہیںکہ وہ اہل پاکستان کو نئے ٹرک کی نئی بتی کے پیچھے لگا دیں لیکن پاکستانی عوام کے دل کی بات انکے مسائل انکی سوچیں لندن اور دوبئی نہیں پہنچ سکتیں۔ دونوں جگہوں تک رسائی عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی وہ ٹکٹ خرید سکتا ہے نہ وہاں کوئی اسکی میزبانی کر سکتا ہے پس اسکی بات اسکی سوچ اسکے دل میں ہی رہ جاتی ہے۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ دو ہفتے قبل دبئی میں اکٹھے ہوئے، آئندہ چند روز میں انکی ایک اور اہم ملاقات متوقع ہے۔ دبئی یا لندن لاہور کی انار کلی کا بانو بازار تو ہے نہیں جہاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دہی بھلے یا فروٹ چاٹ کھانے دوڑے چلے آتے ہیں۔
یہاں ہونے والے اہم فیصلے صرف یہ نہیں کہ مرکز میں حکومت کون سنبھالے گا اور صوبے کس کس کے حصے میں آئیں گے یا مرکزی وزارتیں کس کس کو بخشی جائیں گی بلکہ پاکستان کے مقدر کے فیصلے بھی ہو رہے ہیں جس کا تعلق پاکستان کی معیشت سے ہے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں ذرائع اطلاع دیتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل بڑھیں گے کم نہ ہو نگے، قرضوں کے انبار میں ہوشربا اضافہ ہو گا کمی نہ ہوگی، قرض اور سود کی ادائیگیاں مزید مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن ہو جائیں گی، وہ کیسے، یہ جانتا چنداں مشکل نہیں، دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی پالیسی اس حوالے سے ایک ہی ہے کہ اپنے قیمتی اثاثے فروخت کرو، زیادہ تر ماہرین معاشیات کا زور بھی اسی بات پر ہے وہ کسی نہ کسی ملک کے بڑے انویسٹمنٹ کنسورشیم کی زبان بولتے ہیں، وقت آنے پر انہیں حق خدمت ملے گا اور توقع سے زیادہ ملے گا۔ روس نے پاکستان کو سٹیل ملز لگاکر دیں وہ اسے لینے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس میں چین بھی اسکے ساتھ شامل ہے، اضافی طور پر وہ کراچی الیکٹرک بھی لینا چاہتا ہے، عرب ممالک پاکستان کے تمام بڑے ایئر پورٹس میں دلچسپی رکھتے ہیں، خلیجی ریاستیں پی آئی اے لینا چاہتی ہیں، امریکہ کی نظر پی آئی اے کے ملکیتی بیرون ملک دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثوں پر ہے جبکہ ریلوے کی ملکیتی زمینیں اور اثاثے دیکھ کر بھی آدھی دنیا کے منہ پانی آتا ہے جو جس کو سودا بیچے گا وہ خود بھی نہال ہوگا۔
پاکستان کے یہ تمام اثاثے اربوں روپیہ کما کر پاکستان کو دیتے رہے ہیں اور آئندہ بھی دے سکتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو غیر ملک انہیں خریدنے کیلئے بے تاب کیوں ہوتے۔ یہ اثاثے اونے پونے خریدنے کے بعد وہ صرف ایک کام کریں گے وہ ہوگا ’’ رائٹ سائزنگ ‘‘ اس کے ساتھ ہی یہ تمام ادارے منافع دینا شروع کر دینگے، اسکی بڑ ی مثال پاکستان کے ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف کے شعبے کی ہے جسے بیچا گیا اور غیر ملکی کمپنیوں نی بذریعہ سیل فون کئی ہزار ارب ڈالر کمائے اور بیرون ملک لے گئے، یہی حال ہمارے محکمہ ڈاک کا ہوا دنیا میں ڈی ایچ ایل اور ٹی سی ایس ایک ماڈرن تصور تھا وہ کامیاب رہے ہم بھی ایسا کر سکتے تھے لیکن ہم نے اسے فروخت کرنا مناسب سمجھا، ملک پر مجموعی قرض کی مالیت58ہزار 962ارب روپے ہے، مقامی قرض5968ارب روپے ہو چکے ہیں جو صرف اس صورت ادا ہو سکتے ہیں کہ کما کر دینے والے ادارے کامیابی سے چلائے جائیں، ان میں لوٹ مار ختم کی جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں، ہمارے یہاں پٹرول نکل آنے کی کہانی بہت پرانی ہے جو ہر موقع انتخابات پر سنائی جاتی ہے، پٹرول اور سندھ کے سونے سے قرض اتارنے کی کہانی بھی پٹ چکی ہے، آنے والی حکومت پرانا راگ ازسر نو سنائے گی کہ ملک کی خاطر سخت فیصلے کرنا پڑیں گے، عوام پر عرصہ حیات تنگ کیا جائے گا۔ 2020ء میں منظور نظر شخصیات میں تین ارب ڈالر کے بلا سود قرضے بانٹے گئے، موجودہ حکومت نے وہ واپس لینے کی بجائے آئی ایم ایف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے حصول کیلئے اسکے سامنے لیٹ جانا مناسب سمجھا، اسے شیر شاہ سوری ثانی کا ویژن سمجھ لیں، پی ڈی ایم کا یا لندن، دبئی ملاقات کا حصہ سمجھ لیں، بات ایک ہی ہے مگر بہت خوفناک ہے، بنجارے سب کچھ لادنے کیلئے ہمارے دروازے پر پہنچ چکے ہیں۔