دنیا میں خطرناک جنسی بیماری وبا کی طرح پھیلنے لگی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت اور امریکہ کے صحت سے متعلقہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری آتشک یعنی سفلس کے پھیلاو میں وبا جیسی تیزی آگئی ہے
اپریل میں امریکہ نے جنسی تعلق کی وجہ سے منتقل ہونے والی بیماریوں، جنھیں ’سیکشوئلی ٹرانسمیٹڈ ڈیزیز‘ یا ایس ٹی ڈی کہا جاتا ہے، کے اعداد و شمار جاری کیے۔
ان اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے 2021 کے درمیان اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ 70 سال کی تاریخ میں اس بیماری کے کیسز ایک سال میں 32 گنا بڑھ گئے اور وبا کی شکل اختیار کر جانے والی یہ بیماری کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
سی ڈی سی، جو بیماریوں سے بچاؤ کا امریکی ادارہ ہے، کے مطابق تیزی سے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس بار چند خطرناک رجحانات بھی سامنے آئے ہیں۔
ان میں سے ایک رجحان یہ ہے کہ ’کنجینیٹل سفلس‘، جو ایسی حاملہ ماں سے بچے میں منتقل ہو جاتا ہے جسے خود یہ بیماری اپنے پارٹنر سے لگتی ہے۔
بیماری کی یہ قسم پیدائش کے وقت بچے کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ طویل المدتی صحت کے مسائل پیدا کر سکتی ہے جو ساری زندگی پیچھا نہیں چھوڑتے۔
ان رجحانات نے ماہرین صحت کو کافی پریشان کر دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں سفلس کے 71 لاکھ نئے کیس سامنے آئے۔ 2022 میں سفلس کے کیسز کی تعداد 1948 کے بعد سب سے بلند سطح پر پہنچ گئی۔
*بیماری کی علامات*
اس بیماری کی وجہ ’ٹریپونیما پلیڈیئم‘ نامی بیکٹیریئم ہوتا ہے اور اس کی علامات چار مراحل میں ظاہر ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے مرحلے میں سوزش یا خارش شروع ہوتی ہے لیکن درد کا احساس نہیں ہوتا۔ اس بیماری کا علاج ممکن ہوتا ہے لیکن اگر علاج نہ کروایا جائے تو طویل المدتی اعصابی یا دل کی بیماریوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔