چین کا اثر و رسوخ

محمد مبشر انوار
تاریخ شاہد ہے کہ افغانستان کی سرزمین، اپنے وقت کی عالمی طاقتوں کا مدفن رہی ہے اور کوئی بھی عالمی طاقت اپنے بے پناہ وسائل کے باوجود افغان سرزمین کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ افغانستان کے ناقابل تسخیر ہونے میں ایک طرف یہاں کے غیور و بہادر عوام کا فطری طور پر آزاد پسند ہونا ہے تو دوسری طرف اس کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ کوئی بھی جارح طاقت اس کو مکمل طور پر تسخیر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ہر ابھرتی اور تسلیم شدہ عالمی طاقت کو یہ زعم رہا ہے کہ کسی طرح افغان سرزمین پر اپنا تسلط قائم کر کے ماضی کی شکست خوردہ قوتوں سے خود کو ممتاز کر سکے، لیکن ہنوز کسی بھی عالمی طاقت کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ افغانستان مسلسل دہائیوں تک جنگی حالت میں رہا ہے۔ گزشتہ صدی میں بھی افغان سرزمین پر، وقت کی دو بڑی طاقتوں نے افغان سرزمین کو اپنے تسلط میں لانے کی ناکام سعی کی، جس کے نتیجہ میں روس کے حصے بخرے ہو گئے جبکہ امریکہ بھی دو دہائیوں تک افغانستان میں خوار ہونے کے بعد، مکمل شکست کھا کر یہاں سے کان منہ لپیٹ کر واپس چلا گیا۔ گو کہ روس کی مانند امریکہ کے حصے بخرے نہیں ہوئے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے حصے بخرے ہوتے نظر آتے ہیں، کہ امریکہ نے کبھی کوئی جنگ اپنی سرحدوں پر نہیں لڑی لیکن جنگی اخراجات یقینی طور پر اس کی معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں، جبکہ امریکی معیشت کو سنبھالا بھی بہرکیف جنگوں نے ہی دے رکھا ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کے پیچھے کسی نہ کسی طور امریکی ہاتھ کا ہونا ایک طے شدہ امر ہے، جو آنے والے وقت میں آشکار ہو ہی جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی معیشت کو چلانے میں بہرکیف، جنگوں کا ایک بڑا ہاتھ ہے، امریکی اسلحہ سازی کے حوالے سے دنیا بھر میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال اور بہرکیف اس اسلحے کی پائیداری، امریکی معیشت کو سنبھالے ہوئے ہے، جبکہ جنگ کے بعد ہونے والے نقصان بلکہ انفرا سٹرکچر کے زمین بوس ہو جانے پر بھی امریکی ماہرین ہی اس انفرا سٹرکچر کو دوبارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور یوں امریکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ با الفاظ دیگر ! یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ امریکی دنیا بھر میں اپنے پائو گوشت کے لئے پہلے تباہی و بربادی کرتے نظر آتے ہیں اور اس بربادی کو آباد کرنے کے لئے بھی اپنی خدمات محکوموں ؍ تباہ حالوں مہنگے نرخوں بیچ کر، ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو بہر طور اپنے قبضے میں کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے تا کہ دنیا بھر کی کنجی اس کے ہاتھ میں رہے۔
امریکی اپنی منصوبہ سازی میں کس قدر کامیاب ہیں، اس کا مشاہدہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح گزشتہ صدی تک دنیا امریکی منصوبوں کے مطابق عمل پیرا رہی ہے، لیکن افغان جنگ میں ملوث ہونے کے بعد امریکی اثر و رسوخ بری طرح متاثر ہو چکا ہے اور کئی ایک ممالک اس دورانئے میں نہ صرف اپنی حیثیت کو مستحکم کر چکے ہیں، بلکہ اپنا اثر و رسوخ بھی، امریکی مقابلے میں، دنیا پر قائم کر چکے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پاس بھی یہ موقع موجود تھا کہ وہ اس ہنگام میں اپنے حالات کو بہترین بنا لیتا لیکن افغان جنگ کے اولین حصے میں کہ جب روس افغانستان میں برسر پیکار تھا، پاکستان کی معاشی صورتحال قدرے بہتر رہی گو کہ اس دور میں بھی صنعتی ترقی کی رفتار بعینہ ویسے نہ تھی کہ جیسی پاکستان حاصل کر سکتا تھا، البتہ اس دور میں حکمرانوں کی اولین ترجیح ایٹمی اثاثوں کی تکمیل تھی، جو بہرکیف حاصل کر لی گئی، جبکہ افغان جنگ کے دوسرے حصہ میں تو حکمرانوں کی ترجیحات ہی انتہائی شرمناک رہی کہ یہاں سے امریکی مطلوبہ شخصیات کو بعوض ڈالر امریکہ کے حوالے کرتے رہے اور وطن عزیز کی معیشت کو ڈبوتے رہے۔ نتیجتا آج پاکستانی معیشت منہ کے بل پڑی، ان حکمرانوں کی پالیسیوں کا منہ چڑا رہی ہے جبکہ عوام کی حالت نا گفتہ بہ ہو چکی ہے لیکن کسی بھی ’’ حکمران‘‘ کو ملک و قوم کی چنداں فکر نظر نہیں آتی، آج بھی ایسی حکومت برسراقتدار ہے کہ جس کی حریصانہ نظریں پاکستان کے وسائل پر گڑی ہیں اور وہ انہیں عالمی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھوا کر، ڈنگ ٹپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ارباب ’’ اقتدار و اختیار‘‘ دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل کو سمیٹنے میں مصروف ہیں کہ کسی طرح اس وطن کو کھوکھلا کر کے، ذاتی تجوریوں کو بھر لیا جائے، بیرون ملک رہائش رکھی جائے، گلشن پاکستان کو جلتے تپتے صحرا میں بدل کر پاکستانیوں کو اس میں خود سوزی ؍ جلنے کے لئے چھوڑ دیا جائے ۔
صد افسوس! کہ عالمی سیاسی حرکیات اور قوم پرستی پر لکھا جائے تو دل میں سلگتی چنگاریاں از خود پاکستان کی حالت زار کا نوحہ لکھنا شروع کر دیتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں پاکستانی تارکین وطن نے ان صحرائوں کو گلشن بنانے میں اپنا خون پسینہ تک بہا دیا لیکن اپنے خوبصورت چمن کو خون آشام بھیڑیوں کے ہاتھوں تھما دیا کہ جنہوں نے اس چمن کو صحرا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امریکی افغان جارحیت کے دوران نہ صرف روس اپنے قدموں پر کھڑا ہو چکا ہے بلکہ چین ایک بہت بڑی عالمی معاشی طاقت بن کر امریکی منصوبوں کو خاک میں ملانے کے لئے خم ٹھونک کر میدان میں کھڑا ہے۔ امریکی معیشت، جس کی بنیاد امن عالم کے برعکس، جنگوں پر رکھی گئی ہے، چین اس کے برعکس ایسی معاشی پر امن پالیسیوں کے ساتھ میدان میں ہے کہ اکثر ممالک کا جھکاؤ واضح طور پر چین کی طرف دکھائی دیتا ہے، اور دنیا کے بیشتر ممالک چین کی بات سنتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال سعودی عرب اور ایران کی ہے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان ایک عرصہ تک امریکی پالیسی کے مطابق دوریاں رہی ہیں، بلکہ کسی حد تک دشمنی دکھائی دیتی رہی ہے لیکن مجال ہے کہ امریکہ نے اس خلیج کو بھرنے کی کوشش کی ہو، البتہ اس میں دامے درمے سخنے اضافہ ہی ہوتا رہا ہے، لیکن چین نے انتہائی کامیابی کے ساتھ ان دونوں ممالک کے اختلافات کو ختم کروا دیا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں کی سیاسی بالغ نظری سے قوی امید ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک، کسی بھی تیسرے فریق کی اختلاف پیدا کرنے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہو نے دیں گے، دونوں کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلقات قائم ہوں گے، اور خطے میں امن پروان چڑھے گا۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ میں کئی ایک دوسری کوششوں کے نتیجہ میں خطے کے ممالک ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں، ان کے درمیان خلیج ختم ہو رہی ہے، جس کا سہرا بہرطور چین کے سر ہے۔
مشرق وسطی میں سب سے اہم معاملہ اسرائیلی ریاست کا نہتے فلسطینیوں پر ریاستی دہشت گردی ؍ تشدد ہے، جس کی وجہ سے خطہ میں امن قائم نہیں ہو پا رہا، عربوں کے علاوہ اسلامی ممالک کا یہ مطالبہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی فارمولا روبہ عمل آئے اور اس کے لئے 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر اتفاق رائے کرتے ہوئے، اسرائیل کو فلسطینی علاقوں سے بے دخل ہو جانا چاہئے۔ چین کا یہ باضابطہ اعلان نہ صرف انتہائی اہمیت کا حامل بلکہ منصفانہ بھی ہے اور اس سے مسلم دنیا میں یقینی طور پر خوشی کی لہر دوڑ چکی ہے، اس ضمن میں چین کے صدر فلسطینی صدر محمود عباس کو چین میں بلوا کر یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں اور دوسری طرف اسرائیل کے وزیراعظم کو بھی چین میں دعوت دے چکے ہیں۔ نیتن یاہو اپنے تند مزاج کے باوجود، اس اعلان کے خلاف جانے کے بجائے، امریکی قانون سازوں سے معذرت کرکے چین جانے کی تیاری میں ہیں، جو اس بات کابین ثبوت ہے کہ چین کا اثر و رسوخ کس حد تک بڑھ چکا ہے۔ یہاں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے چین کی پالیسی بھی روز اول سے واضح ہے جبکہ تائیوان پر چین کا موقف بھی ساری دنیا جانتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان واضح پالیسیوں کے باوجود، نہتے فلسطینی و کشمیری عوام پر ریاستی دہشت گردی ؍ تشدد کب تک جاری رہے گا؟۔ کب چین اس پوزیشن میں آئے گا کہ بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کے ہاتھ رکیں گے اور کب ان محکوموں کو آزادی میسر ہو گی؟۔