Column

دجال، اسرائیل اور فلسطینی

محمد ناصر شریف
’’ دجال‘‘ عربی زبان میں جعل ساز، ملمع ساز اور فریب کار کو کہتے ہیں۔ ’’ دجل‘‘ کسی نقلی چیز پر سونے کا پانی چڑھانے کو کہتے ہیں۔ دجال کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جھوٹ اور فریب اس کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف ہوگا۔ اس کے ہر فعل پر دھوکا دہی اور غلط بیانی کا سایہ ہوگا۔ کوئی چیز، کوئی عمل، کوئی قول، اس شیطانی عادت کے اثرات سے خالی نہ ہوگا۔ دجال وہ کردار ہے جس کا ذکر ہمارے نبیؐ کی کئی حدیثوں میں اور اسے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک کا سب سے بدترین فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ عالم اسلام کے لیے دجال کا ظہور انتہائی مشکل ترین اور فتنہ انگیز ہوگا۔ دجال شیطانی قوتوں کا حامل ہوگا، دنیاوی طاقتوں سے مالا مال ہو گا اور ان کے ذریعے دنیا میں تباہی مسلط کرے گا۔ احادیث کی روشنی میں کسی خاص جگہ کو دجال کے ظہور کے لیے مختص نہیں کیا گیا، دجال کا خروج سب سے پہلے شام اور عراق کے درمیان کی گھاٹی سے ہوگا، مگر اس وقت اس کی شہرت نہ ہوگی، اس کے اعوان و انصار ( مدد گار) یہودیہ گائوں میں اس کے منتظر ہوں گے، وہ وہاں جائے گا اور ان کو ساتھ لے کر پہلا پڑائو خوز و کرمان میں کرے گا، پھر مسلمانوں کے خلاف اس کا خروج خراسان سے ہوگا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کے مطابق تل ابیب کے ایک مضافاتی علاقے میں، گویّوں کا ایک گروپ اس لمحے کی تیاری کر رہا ہے جب وہ یہودی ہیکل کی تباہی کے تقریباً دو ہزار سال بعد دوبارہ اس کی تعمیر پر خوشی منائیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ اس ہیکل کی تعمیر کے بعد ان کے مسیحا ( مسلمانوں کیلئے دجال) کی آمد میں تیزی آئے گی۔ کورسٹر شموئیل کام کا کہنا ہے کہ ہم یہودی ہیکل کی بحالی کا دو ہزار سال سے ’ انتظار‘ کر رہے ہیں۔ آرتھوڈوکس یہودی گروپ کے ارکان بائبل کے قبیلہ لیوی کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو اپنے مقدس مقام پر مذہبی گیت اور موسیقی پیش کرتے تھے۔ چند ماہ قبل ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے صرف مردوں کے لیے بنائے گئے کوئر کے ڈائریکٹر میناہیم روزینتھل کہتے ہیں کہ ’ جب ہیکل تعمیر ہو جائے گا، ہم لیویوں سے کہیں گے کہ وہ گانے آئیں اور وہ نہیں جان پائیں گے کیا گانا ہے۔ انہیں سیکھنا ہو گا‘۔1987 ء میں قائم ہونے والے اس انسٹی ٹیوٹ کا مقصد ہیکل کی تعمیر نو، گویوں اور یہودی عالموں کو تربیت دینا اور مذہبی رسومات میں استعمال کے لیے اشیا بنانا ہے۔ ان میں ربیوں کے لباس، روٹی کے لیے پکانے کے سانچے، بخور جلانے والے اور موسیقی کے آلات شامل ہیں۔ ان ’ وفاداروں‘ نے اپنی نگاہیں یروشلم کے پرانے شہر کے دل میں بڑے، درختوں سے بنے احاطے پر رکھی ہوئی ہیں۔ جو یہودیوں کے لیے ٹیمپل مائونٹ کے نام سے ان کی مقدس ترین جگہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کمپائونڈ میں صدیوں سے مسجد اقصیٰ بھی قائم ہے، جو اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ ٹیمپل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کرنے والے سابق عبادت گاہ کو یاد کرتے ہیں، جو رومن دور میں 70عیسوی کے قریب تباہ ہو گئی تھی۔ یہودی روایت کے مطابق، ان کا پہلا ہیکل اسی مقام پر اس وقت کے حکمران نبوکدنزار دوم نے 586قبل مسیح میں منہدم کر دیا تھا۔ پچاس سالہ تیسرے ہیکل کے وکیل ہائم برکووٹزکا کہنا ہے کہ ’ آپ جو چاہیں کہہ سکتے ہیں یہ یہودیوں کی جگہ تھی‘۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل کے ہیکل میں یہودیوں کی عبادت ’ صرف وقت کی بات‘ ہے۔ برکووٹز، بونے اسرائیل ( اسرائیل کی دوبارہ تعمیر) کا حصہ ہیں، ایک ایسی تنظیم جو اپنی ویب سائٹ کے مطابق ’ دوبارہ حصول کو قریب لانے‘ پر کام کر رہی ہے۔ اپنے مطلوبہ مقصد میں تیزی لانے کے لییبو نے اسرائیل نے پچھلے سال امریکہ سے پانچ سرخ بچھیاں ( مادہ گائے) درآمد کیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ انہیں قربان کیا جائے اور ان کی راکھ کو پانی میں ملایا جائے، جس سے ایک ایسا مرکب تیار ہو جو تیسرے ہیکل پر چڑھنے سے پہلے کسی بھی ناپاک سمجھے جانے والے شخص کو پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا، مثال کے طور پر وہ لوگ جن کا کسی لاش سے واسطہ پڑا ہو۔ یہ نایاب گائے بہت اہم ہیں، کیونکہ اس رسم کو انجام دینے میں ناکامی اسرائیلی ربینیکل حکام کی طرف سے یہودیوں کے ٹمپل مائونٹ کے دورے کی مخالفت کا حصہ ہے۔ یہ نایاب گائے شمالی اسرائیل کے ایک فارم میں موجود ہیں جس کی تصدیق برکووِٹز نے کی ہے۔ اس فارم میں جانوروں کے ڈاکٹروں اور ربیوں کے ذریعے ان کا معائنہ کیا گیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر ایک بال سرخ ہو۔ برکووٹز نے مزید کہا کہ، ’ ہم ان کو لاڈ پیار کرتے ہیں، ہم انہیں مناسب لمحے کے لیے سنبھال رہے ہیں‘۔ برکووٹز نے کہا کہ بونے اسرائیل نے پہلے ہی مشرقی یروشلم میں زیتون کے پہاڑ پر زمین حاصل کرلی ہے، لہٰذا جانوروں کو ٹیمپل مائونٹ کی جانب رخ کرکے جلایا جا سکتا ہے۔ اسرائیل میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے کیشیو سنٹر کے ڈائریکٹر یزہر بیئر کے لیے یہ ’ تیسرے ہیکل سے محبت کرنے والے‘ کسی بھی طرح معمولی نہیں ہیں۔ بیئر نے کہا کہ دو دہائیوں قبل چند درجن پیروکاروں سے شروع ہونے والا ان کا نظریہ ’ سیاسی سطح کے مرکز پارلیمنٹ اور حکومت تک‘ پھیل چکا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے انتہائی دائیں بازو کے وزراء کے ساتھ مل کر حکومت کی قیادت کی، جو مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی خود مختاری مسلط کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ گزشتہ روز اسرائیل نے2002 ء کے بعد مغربی کنارے میں سب سے بڑا فوجی آپریشن شروع کر دیا ہے، جنین شہر اور اس کے پناہ گزین کیمپ پر زمینی اور فضائی حملے کرکے 9فلسطینی مسلمانوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اسرائیلی اخبار ’’ دی یروشلم پوسٹ‘‘ کو بتایا کہ خصوصی فورسز نے جنین کیمپ میں 9 فلسطینیوں کو شہید اور درجنوں کو گرفتار کیا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت نے تصدیق کی اور بتایا کہ جنین اور البرییہ میں اسرائیلی فائرنگ سے 4افراد شہید اور 27زخمی ہوئے جن میں سے 7کی حالت تشویشناک ہے۔ اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ سپیشل فورسز نے بڑے فوجی آپریشن کے بعد جنین میں بھی متعدد گھروں پر چھاپے مارے اور درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔ العربیہ ٹی وی کے مطابق اسرائیل نے جنین شہر اور کیمپ کی طرف مزید کمک روانہ کی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق جنین کے قریب المقیبلہ میں کئی ٹینک موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تقریباً 1000اسرائیلی فوجی آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے دس سے زائد فضائی حملے کیے جن میں سے ایک میزائل حملہ تھا۔ ڈرون سے بھی حملے کیے گئے اس دوران درجنوں بکتر بند گاڑیوں نے حنین کے پناہ گزین کیمپ کو چاروں اطراف سے گھیرے ہوا تھا۔ یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے جس میں تقریبا 14ہزار پناہ گزیں نصف مربع کلومیٹر سے بھی کم جگہ پر رہائش پذیر ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں ہیلی کاپٹر سے میزائل چلایا گیا جو کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ فلسطینی ہلال احمر کے ڈائریکٹر محمود السعدی نے بتایا کہ فضا سے بمباری اور زمین سے حملہ ہورہے ہیں، دریں اثنا مجاہدین کے جنین بریگیڈز نے کہا ہے کہ اس نے اسرائیلی افواج کا مقابلہ کیا اور ایک ڈرون مار گرایا۔ ادھر فلسطینی وزیراعظم محمد ش تیہ نے کہا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کیمپ کو تباہ کرنے اور یہاں کے لوگوں کو بے گھر کرنے کی ایک نئی کوشش ہے۔ ہمارے بہادر عوام اس جارحیت کا مقابلہ کریں گے ہمارے لوگ گھٹنے نہیں ٹیکیں گے اور ہتھیار نہیں ڈالیں گے ہم اس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک یہ مجرمانہ قبضہ ختم نہیں ہوجاتا۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے اسرائیلی کارروائی کو غیر مسلح لوگوں کے خلاف ایک نیا جنگی جرم قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس سے خطے میں سلامتی اور استحکام نہیں آئے گا۔ دوسری جانب اسرائیل کے وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کا ہدف فلسطینی عوام نہیں بلکہ ایران کی سرپرستی میں جنین میں سرگرم عسکریت پسند گروپ ہیں یہ جھڑپیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب تل ابیب اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان کشیدگی میں پہلے ہی اضافہ ہو گیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے اتوار کو مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں 4ہزار 560ہائوسنگ یونٹس کی تعمیر کو اسرائیلی سپریم پلاننگ کونسل کے ایجنڈے میں شامل کرنے کے منصوبے کی منظوری دیدی جس سے فلسطینیوں میں بھی غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینی کئی مہینوں کے تشدد کی لپیٹ میں ہیں، جن کا مرکز مغربی کنارا ہے، جہاں اس سال تقریباً 120فلسطینی شہید اور 20اسرائیلی اور متعدد غیر ملکی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین تنازع کی اصل وجہ سمجھانے کے لیے دجالی فتنہ سے شروعات کی گئی، فلسطینی مسلمان اپنی سرزمین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس دجالی فتنے کا بھی مقابلہ کر رہے ہیں جس کی آمد کی پیش گوئی کی جاچکی ہے اور ساتھ یہودی اس کی تیاری بڑے زور و شور سے اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں مسلم امہ کو فلسطینیوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرنی چاہیے اور اسرائیل کے فلسطینی علاقوں اور بیت المقدس کی جانب بڑھتے قدم روکنے کے لیے متحد ہوکر فیصلہ کن معرکے کی تیاری کرنی چاہیے ۔

جواب دیں

Back to top button