Column

چلو موہنجوداڑو ہڑپہ چلیں

سیدہ عنبرین
پری مون سون کا آغاز ہو چکا ہے، جس روز بھی بارش ہو جائے شہر کی ہر سڑک سوئمنگ پول بن جاتی ہے۔ سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑیاں اور انکے سوار سب تیرتے نظر آتے ہیں۔ دو، تین روز ہاہا کار مچی رہتی ہے پھر تصویریں شائع ہوتی ہیں، نکاسی آب کے عملے نے دن رات کام کر کے شہریوں کی مشکلیں آسان کر دی ہیں جبکہ شہری اپنے آپ کو نئی مشکلوں میں پھنسنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں، سڑکوں پر پڑے گڑھے، مین ہول کے غائب ڈھکن روز کسی نہ کسی کا امتحان لیتے ہیں۔ عام آدمی کا امتحان ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، اسی اثنا میں مون سون سیزن کا آغاز ہو جاتا ہے، بچی کھچی سڑکیں اس میں بہہ جاتی ہیں، کچھ سڑکیں صرف کاغذوں میں تعمیر ہوتی ہیں۔ آئندہ بجٹ میں ان سب کی تعمیر کیلئے رقوم مختص ہو جاتی ہیں، آنے والے برس پھر پری مون سون اور مون سون کا سیزن ہر شے کو تہس نہس کر جاتا ہے ۔ یوں ہماری ترقی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ہم ہزاروں برس پرانی تہذیب ہڑپہ و موہنجوداڑو سے ایک سبق حاصل نہیں کر سکے کہ اس زمانے میں نکاسی آب کیلئے انہوں نے کتنے عمدہ انتظامات کر رکھے تھے۔ گلیاں کشادہ اور سیدھی تھیں، گھر کھلے اور ہوا دار تھے، اشیائے صرف خالص، انسان اور انسانیت کا احترام تھا۔ یوں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی زندگی بھی پرسکون تھی، گدھے سے بار برداری کا کام لیا جاتا تھا، اسکی کھوتا کڑاہی نہیں بنائی جاتی تھی، اس دور اور آج کے زمانہ جدید میں فرق تلاش کرنے بیٹھیں تو ایک فرق ایسا سامنے آتا ہے جو ہمیں ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذیب سے بھی بہت پیچھے لے گیا ہے۔ تب جمہوریت نہیں تھی آج جمہوریت ایک عفریت بن کر نظام کو اپنے شکنجے میں لے چکی ہے۔ یہ عفریت روزمرہ کی بنیاد پر بننے والے نئے خون کو چوس رہی ہے نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے کا جسم روز بروز ناتواں ہو رہا ہے۔ اب تو خطرہ ہے کہ وہ جسم جسے ہم جسد خاکی کہتے ہیں کسی بھی وقت زمین بوس ہو جائے گا، اس میں کھڑے ہونے کی سکت باقی نہیں، نہ ہی زندگی کی کوئی رمق نظر آتی ہے۔ مون سون ختم ہونے کے بعد ڈالروں کی برسات کی نوید سنائی گئی ہے۔ مالیاتی آسمان پر کوئی بدلی ایسی نظر نہیں آتی جسے دیکھ کر دل کو ڈھارس دی جاسکے کہ زیادہ نہ سہی کچھ ڈالر تو ضرور برسیں گے، بتایا گیا ہے کہ ہر مرتبہ کی طرح چین روس سعودی عرب متحدہ عرب امارات ہمارے آنسو پونچھنے کیلئے قدم بڑھائیں گے یوں تقریباً دس ارب ڈالر ہماری جھولی میں ڈال دیں گے۔ دوسری طرف پاکستان کو رواں سال پچیس ارب ڈالر قرض ادا کرنا ہے جبکہ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کی گلوکوز کی بوتل کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا بر وقت ملے یا سانسیں اکھڑ جانے کے بعد بھی نہ ملے۔
ڈالر کی برسات ہو بھی جائے تو اس سے عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا جس طرح غریب کے نصیب کی بارشیں امیر کی چھت پر برس جاتی ہیں ڈالر بھی کچے مکانوں کی کچی چھتوں اور کچی آبادیوں میں برساتی نالوں کے دونوں جانب بنائی، ڈھائی جانے والی کچی بستیوں میں نہیں برسے گا۔ ڈالر برسات جب بھی ہوئی غریبوں کی بستیاں ان میں بہنے والے نالے کوڑے سے ہی بھرے رہے۔ رہی سہی کسر روپے کی ہمیشہ کم ہوتی قیمت پوری کر دیتی ہے۔ روٹی دو روپے سے پچیس روپے اور چینی پینسٹھ روپے سے ڈیڑھ سو روپے کلو ہو جاتی ہے۔ دودھ میں پہلے پانی بتیس فیصد ہوتا تھا ترقی کی منازل طے کرنے کے بعد اب اسکا تناسب نصف نصف ہے آپ اسے انصاف بھی کہہ سکتے ہیں۔ انصاف کا مطلب بھی نصف نصف کر دینا ہے ۔
روتے روتے ہماری عمریں بیت گئیں خدارا اس نظام انصاف سے ہماری جان چھڑائی جائے اور نظام عدل نافذ کیا جائے لیکن کوئی نہیں سنتا۔ نظام عدل حکمران طبقے کی موت کیلئے زود رساں ہے۔ نظام عدل رائج ہو گیا تو حق دار کو اسکا حق دینا پڑے گا نظام انصاف میں ایسا نہیں۔ وہاں تو سب کچھ نصف نصف ہو جاتا ہے، سارا لفظوں میں جان لیجئے کہ آپکے مقدر کا نصف بھی کسی اور کی قسمت میں لکھ دیا جاتا ہے جس کے بعد کوئی اپیل دلیل وکیل کچھ نہیں کر سکتا۔ اسی نظام میں گھر کی تعمیر کیلئے لیا گیا قرض اصل زر سے تین گنا ہو جاتا ہے جسے ادا کرتے کرتے صاحب مکان جاں سے گزر جاتا ہے جبکہ طبقہ امراء اور بالخصوص حکمران اشرافیہ کا کارخانے کیلئے لیا گیا اربوں روپے کا قرص عدم ادائیگی کے سبب اسکے حال پر ترس کھا کر معاف کر دیا جاتا ہے تا کہ وہ ایک نیا پراجیکٹ بنا کر لائے ایک نیا قرض حاصل کر ے اور پھر اسے معاف کرانے کی سعی کرے۔
جناب وزیر اعظم پاکستان کا خوبصورت بیان نظر سے گزرا کہ اگر ہم سب بیس برس تک دل لگا کر محنت سے کام کریں تو ملک ترقی کر سکتا ہے اسکی تقدیر بدل سکتی ہی اس بیان سے واضح ہوا ہے کہ بیس برس محنت سے کام کرنے کا منصوبہ کہیں بن چکاہے، ملک بھر کے چند خاندان اور انکے سربراہوں نے کام آپس میں بانٹ لئے ہیں کہ کس کس نے کس شعبے میں محنت کرنا ہے اور ملک کی تقدیر بدلے نہ بدلے انکی آئندہ نسلوں کی تقدیر جو گزشتہ ستر برس میں پہلے ہی بہت بدل چکی ہے اسکے خدوخال مزید کیسے سنوارے جاسکتے ہیں عام آدمی کی اس نظام میں اب ایک ہی خواہش ہے اسے موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے زمانے میں پہنچا دیا جائے۔ جہاں شہر پانی میں نہ ڈوبے ہوں اشیاء صرف خالص ہوں، عدل دستیاب ہو، ہر شخص کو جینے کے لئے یکساں ہوا میسر ہوں اور جمہوریت سرے سے موجود نہ ہو، ملک پر قرضوں کا انبار نہ ہو ۔ آخر میں ناصر شیرازی کا ایک شعر:
آئو سر اٹھا کے آگے بڑھیں
چلو موہنجوداڑو ہڑپہ چلیں

جواب دیں

Back to top button