چہرے نہیں نظام بدلیں

یاور عباس
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کون سا جمہوری عمل ہے جس کی دنیا تعریف کرے اور دوسروں کو مثال دے سکے کہ پاکستان میں یہ جمہوری عمل قابل تقلید ہے، جمہوریت کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا اور ان کا معیار زندگی بہتر بنانا ہوتا ہے ، جمہوری نظام میں رہنما حقیقی معنوں میں عوام کا خادم ہوتا ہے مگر یہاں تو الٹی ہی گنگا بہتی ہے۔ الیکشن کا سیزن ہوتو سیاستدانوں کے لباس، گفتگو اور گاڑیاں تبدیل ہوجاتی ہیں وہ خود کو عام آدمی کے روپ میں عوام میں پیش کرتے ہیں مگر ان کی حقیقی زندگی ان چار دنوں کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ پرآسائش اور پرتعیش زندگی گزارنے والوں کو جب حلقہ کے عوام سے باتیں سننا پڑتی ہیں تو بڑے عاجزانہ انداز میں اپنی غلطیوں پر نادم نظر آتے ہیں اور بڑے مکارانہ انداز میں عوام کو کوئی نیا سبز باغ دکھا کر چلے جاتے ہیں پھر اگلے ووٹوں تک عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہوتے ہیں ، تھانہ کچہری کی سیاست بھی ان کی جیب میں ہوتی ہے جس کو مرضی تھانیدار لگوایا اور پھر جس کو مرضی حوالات تک پہنچایا اور مک مکا کروا کے یا پھر سیاسی مقاصد حاصل کر کے خود ہی چھڑوا بھی لیا ۔ قومی خزانہ کا مال جسے عوام پر خرچ کر کے ان کے مسائل حل کرنا ہوتے ہیں ان سے ذاتی تجوریاں بھری جاتی ہیں، اقرباء پروری کی جاتی ہے اور کاروبار بھی بیرون ملک میں کرتے ہیں ۔
جمہوریت کی پہلی سیڑھی ووٹ ہے۔ جس کے ذریعے عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور ووٹ کو قوم کی امانت قرار دیا گیا ہے یہی ووٹ ضمیر کی آواز کہلاتا ہے مگر یہاں ووٹ کو عزت کون دیتا ہے ہر الیکشن میں دھاندلی کا الزام ساری پارٹیاں ہی لگاتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ملک میں ووٹ کو بیعت کی دوسری شکل بھی کہا جاسکتا ہے جس میں ووٹ دینے والے اپنے نمائندہ کے اچھے برے اعمال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ مگر غربت، مہنگائی اور بیروزگاری نے اس قدر مجبور اور بے بس کر دیا ہوتا ہے کہ لوگ چند سکوں کے عوض ووٹ بیچنے کو تیار ہوجاتے ہیں ، کچھ لوگ نقد نہیں لیتے کوئی کام کروا لیتے ہیں اور کچھ اختیارات بانٹ لیتے ہیں گویا کوئی چند ایک لوگ ہی ہوں گے جو ووٹ قومی امانت سمجھ کر ضمیر کے مطابق دے دیتے ہیں وگرنہ ہر کوئی فارسیل بیٹھا ہوتا ہے۔ پھر یہی نمائندوں اسمبلیوں میں جاکر اپنا ووٹ بیچتے ہیں اور اپنے اگلے پچھلے سارے حساب برابر کر لیتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا وہ نظام پاکستان میں برپا ہے جس کی مثال شاید کسی جمہوری ملک میں نہ دی جاسکتی ہو۔ یہاں اربوں ڈالرز آئے مگر کہاں خرچ ہوئے کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔ قانون سازی کرنے والوں نے عوام کے ساتھ 76برسوں میں وہ کھلواڑ کیے ہیں کہ ان کا خمیازہ غریب عوام کی آنے والی نسلیں بھی بھگتیں گی ۔
غالباً 2001ء میں تحریک استقلال کے سربراہ ایئر مارشل ( ر) اصغر خاں سے ملاقات کا موقع ملا اور ان سے پوچھا گیا کہ ایوب خاں کی آمریت سے جان چھڑانے کے لیے آپ صف اوّل کے لیڈر تھے مگر اقتدار تک نہ پہنچ سکے ۔ تو انہوںنے کہا کہ میں پاکستان کے جمہوری نظام کو بہت دیر سے سمجھ سکا اور مجھے پہلی سمجھ یہ آئی کہ ایک مولوی اور ایک چور کا ووٹ ایک برابر ہے اس لیے ووٹ لینے کے لیے سارے طبقات کو راضی رکھنا پڑتا ہے جو میں نہیں کر سکا۔ اسی طرح ملک میں انصاف قائم کرنے اور چوروں کا احتساب کرنے کا نعرہ لگانے کے باوجود عمران خاں کو کرسی کے حصول کی خاطر الیکٹیبلز کی صورت میں وہ سارے چور ڈاکو پاکستان تحریک انصاف کی کشتی میں سوار کرنا پڑے تو عمران خاں کو بھی وزیر اعظم بننے کا موقع ملا اور یوں جنہیں وہ ماضی میں چور، ڈاکو کہتے تھے ان کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع مل گیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت کا حال ہی دیکھ لیا ، تمام سیاسی جماعتیں ماضی میں ایک دوسرے کو چور کہتی تھیں مگر اقتدار کی کشتی میں سب سوار ہوکر باہم شیر وشکر ہوگئے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں غریب عوام کے حالات بہتر ہونے کی بجائے پہلے سے بھی بدتر ہورہے ہیں، کوئی ادارہ ٹھیک ہوا نہ ہی محکمہ پولیس، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں کوئی اصلاحات ہوسکیں۔ کرپشن کا خاتمہ تو دور کی بات کرپشن کا کوئی راستہ نہیں روکا جاسکا۔ محکمہ مال، تھانہ کچہری ہو یا کوئی اور ادارہ کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہونے کی وجہ سے رشوت کے ریٹ بھی بڑھ گئے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے نام پر موروثیت کا راج ہے۔ سیاسی جماعتیں ہو ں یا پارلیمنٹ وہی پرانے چہرے یا پھر ان کی نسلیں اقتدار انہیں کی میراث ہے۔ عام پاکستانی تو وزیر اعظم ہائوس کے دروازے سے اندر بھی نہیں جاسکتا ۔ وزراء تک رسائی ممکن نہیں ، قابلیت کا پیمانہ باپ دادا کا جاگیردار ہونا اور سیاستدان ہونا ہی، ملک میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، سفارش اور رشوت کی بدولت نالائق لوگ اونچے مقام پر پہنچ چکے ہیں اور اہل افراد دھکے کھا رہے ہیں۔ لوگوں کی بنیادی ضروریات ریاست پوری کرتی ہے اور یہاں عام آدمی بیمار ہوجائے تو کوئی علاج کرنے والا نہیں ملتا کہ اس کے پاس نہیں ہے ، سرکاری ہستپالوں میں دھکے کھا کھا کر لوگ قبروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ وسائل اور اختیارات پر چند لوگوں کا قبضہ ہے ، یہاں کی جمہوریت درحقیقت آمریت کی ہی شکل ہے ۔ لوگ جن سیاسی چہروں سے جان چھڑانے چاہتے ہیں وہ پارٹی بدل کر پھر ان پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے پاکستان میں چہرے نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے ، جب تک موجود لوٹ کھسوٹ کا سسٹم رائج رہے گا عوام مسائل کی چکی میں اسی طرح پستے رہیں گے۔ اگر جمہوریت کی آڑ میں عوام کا خون چوسنے والوں کو حق حکمرانی سے روکا نہ گیا تو پھر عوام نسل در نسل چوروں، ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹتے رہیں گے ۔