
جب عراقی صدر صدام حسین کی پھانسی پر امریکی فوجی بھی روۓ
عراق کے سابق صدر صدام حسین کی سکیورٹی پر مامور 12 امریکی فوجی ان کی زندگی کے بہترین دوست تو نہ تھے تاہم وہ ان کے آخری ایام میں بہترین ساتھی رہے۔
یہ 551 ملٹری پولیس کمپنیوں سے منتخب ہوئے تھے اور انھیں ’سپر 12‘ کہا جاتا ہے۔
ان محافظوں میں سے ایک ول بارڈنورپر تھے جنھوں نے ’دی پرزنر اِن ہز پیلس‘ کتاب لکھی۔ جس میں انھوں نے صدام حسین کی زندگی کے آخری دنوں کے بارے میں لکھا۔
اس کتاب کا سب سے حیران کن حصہ وہ ہے جس میں بتایا گیا کہ امریکہ کا دشمن سمجھے جانے والے صدام کی موت پر سپاہی بہت غمگین ہوئے۔
ان سپاہیوں میں شامل ایڈم روتھرسن نے بارڈنورپر کو بتایا کہ ‘جب صدام کو پھانسی دے دی گئی، ہمیں لگا ہم نے اسے دھوکہ دیا ہے۔ ہم خود کو قاتل تصور کرتے تھے۔ ہمیں لگا جیسے ہم نے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا ہے جو ہمارے بہت قریب تھا۔’
جب صدام کو پھانسی دے دی گئی اور ان کی لاش کو باہر لایا گیا تو باہر موجود ہجوم میں شامل لوگوں نے ان پر تھوکنا شروع کر دیا اور انھیں گالیاں دینے لگے۔
بارڈنورپر لکھتے ہیں 12 میں سے ایک نے کوشش کی کہ وہ ہجوم کو ایسا کرنے سے روکے تاہم ان کے ساتھیوں نے اسے واپس کھینچ لیا۔ ایک اور سپاہی سٹیو ہچنسن نے امریکی فوج سے استعفیٰ دے دیا۔
سٹیو اس وقت جارجیا میں اسلحے سے متعلق ٹریننگ دیتے ہیں۔ سٹیو کے مطابق انھیں کہا گیا تھا کہ وہ صدام کی لاش کی بے حرمتی کرنے والوں سے نہ الجھیں۔