Column

میرے دیس کی سیاست اور عوام

یاور عباس

دنیا بھر کے جمہوری اور مذہب ملک اپنی رعایا کو خوشحال رکھنے کے لیے دن رات نئے نئے تجربات کر رہے ہیں ۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے قوانین بنائے جارہے ہیں ۔ مغربی دنیا میں اگر ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ ، برطانیہ اور یورپ نے جنگ عظیم دوم کے بعد تیزی سے ترقی کی ہے تو اس کی بنیادی وجہ لوگوں کو انصاف کے ساتھ ساتھ بنیادی تعلیم ، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہے ۔ وہاں لوگ کے ساتھ کوئی بھی زیادتی ہو تو وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں تمہیں عدالت میں دیکھ لوں گا۔ دنیا کا چھوٹے سے چھوٹا قبیلہ ہو یا محض ایک خاندان ہی کیوں نہ ہو جب تک اس میں انصاف رہے گا وہ گھرانہ مضبوط رہے گا ، لوگوں میں اس کی عزت اور مقام و مرتبہ بلند رہے گا۔ اس گھرانے کے لوگ مل جل کر محنت کریں گے اور دنیا کی تمام آسائشیں سمیٹ لیں گے ۔ مگر جہاں ہر وقت توتکار ، کھڑبا کھڑبی لگی رہے، ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور حسد کی آگ میں جل رہا ہو تو پھر ان کے ہاتھ سے سب کچھ نکل جاتاہے۔ دولت آتی ہے نہ عزت ملتی ہے ، غربت اور بے روزگاری کے ڈیرے جمنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ کچھ یہی حال قوموں اور ریاستوں کا ہوتا ہے جہاں نظام کوئی بھی ہو جب تک وہ عوام کے لیے سہولتیں فراہم کرتا رہے گا وہ ملک مضبوط رہے گا کیونکہ ادارے بھی عوام کی حمایت اور طاقت کے باعث مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ اداروں کا بوجھ بھی عوام کے ٹیکسوں سے ریاست اُٹھاتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں ریاست کے اہلکار اور افسران خود کو قوم کا ملازم سمجھتے ہیں اور عوام کی ہمہ تن خدمت کے لیے مصروف عمل ہوتے ہیں مگر جہاں کہیں بھی سرکاری ملازم یا افسر خود کو حاکم اور عوام کو غلام سمجھنا شروع کر دے تو پھر وہاں کا نظام درہم برہم ہی ہونا ہوتا ہے ، ایسے سسٹم میں سب سے پہلے کرپشن جڑ پکڑتی ہے اور عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے معمولی سے معمولی کام بھی رشوت کے بغیر نہیں کیا جاتا۔ جب لوگ رشوت دینے کے عادی ہوجاتے ہیں تو پھر وہی اہلکار بھتہ وصول کرنا شروع کر دیتے ہیں مطلب جن کو کام نہیں پڑتا ان کا بھی کوئی نہ کوئی کھاتہ نکال لیتے ہیں ، نوٹس بھیجتے ہیں اور دیہاڑی لگاتے ہیں ایسے عوام سے سیاستدان ووٹ کسی نظریہ پر نہیں لیتے بلکہ ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے عوض جیسے نوکریاں دینا ، چند پیسے دے دینا ، راشن تقسیم کر دینا ، نقدی بانٹ کر ووٹ لے لیتے ہیں اور اگر عوام کبھی اپنے حق کی خاطر آواز بلند کرنے کی کوشش کریں تو پھر ریاستی مشینری کے ذریعے عوامی سوچ کو کچل دیا جاتا ہے، لگتا ہے کہ اپنے ملک کا بھی آج کل یہی حال ہو چکا ہے۔
75برس میں جتنی پارٹیاں بھی برسراقتدار آئیں، انہوںنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کارنامے سرانجام دئیے، یہ اب کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے قانون سازی ایک ایک دن میں بھی ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو بس اقتدار چاہیے، خواہ وہ کسی بھی طرح سے مل جائے، بدترین مخالفین کے قدموں میں ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے، بس کسی نہ کسی طرح اقتدار کا جھولا لینے کی خواہش نے حکمرانوں کو اس قدر اپاہج بنا دیا ہوتا ہے کہ وہ عوام کے لیے کچھ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے، اپنے اتحادیوں کی فرمائشیں، ممبران اسمبلی کو نوازنے سے فنڈ کچھ بچے تو عوام پر خرچ ہو۔75برس سے کبھی مارشل لاء آجاتا ہے تو کبھی جمہوریت کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ حکومتوں میں آنے والے اربوں پتی بن جاتے ہیں اور ملک پر آئی ایم ایف کے قرضوں کا پہاڑ اور اونچا ہوجاتا ہے، ہر سال بعد ہر پاکستانی پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے قرض بڑھ جاتا ہے۔ آج کل ایک مرتبہ پھر ملک دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں، اگرچہ وزیر خزانہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس اربوں ڈالرز کے اثاثے موجود ہیں، ہم ڈیفالٹ نہیں کر سکتے۔ ہماری دلی دعا ہے کہ ہمارا ملک قیامت تک ڈیفالٹ نہ کرے، مگر شاید ہماری حکومت کو اندازہ نہیں کہ 80فیصد پاکستانی عوام ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں ، ہمارے وزرا کبھی دیہاتوں، قصبوں اور چھوٹے شہروں کے بازاروں کا خفیہ دورہ ہی کر کے دیکھ لیں، لوگوں کی شکلیں بے بسی اور غربت کی منہ بولتی تصویریں نظر آئیں گی۔ آج بھی بہت سے لوگ غربت کی لکیر کی نیچے زندگی گزار رہے ہیں مگر انہیں غریب لوگوں کی جیبوں سے بجلی کے بلوں میں بے تحاشا ٹیکسوں، تمام اشیاء ضروریہ کی خریداری پر ٹیکس کے علاوہ کئی بہانوں سے ٹیکس وصول کر کے حکمران طبقہ عیاشی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
میرے دیس کی سیاست میں عوام کی رائے کا احترام کون کرتا ہے، ہر الیکشن میں پہلے سے طے کر لیا جاتا ہے کہ اب اقتدار کس کو دینا ہے۔ ماضی کے تمام انتخابات کی کہانیاں زبان زد عام ہیں اور تاریخ کا حصہ بھی، ہم دور نہ جائیں 2018ء کے الیکشن پر کون کون سی پارٹی نے اعتراض نہیں اُٹھایا تھا کہ پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں لائی، سینئر صحافیوں نے بھی اس بات کی تائید کی، حامد میر نے انکشاف کیا کہ جنرل ( ر) باجوہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر وہ نوازشریف کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، اس لیے اقتدار عمران خاں کے حوالے کر دیا گیا۔ پاکستان کے عوام نے دیکھا کہ کس طرح مشرف دور میں مسلم لیگ ن کو توڑا گیا اور مسلم لیگ ق کی تشکیل دی گئی اور پھر اسے اقتدار سے بھی نوازا گیا مگر عوامی مقبولیت کے بغیر وہی مسلم لیگ ق کا آخر کیا حال ہوا سب جانتے ہیں۔ اسی طرح آج کل تحریک انصاف کو توڑا جارہا اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کو جہانگیر ترین کے پاس بھیجا جارہا ہے اور پھر انہوںنے نئی پارٹی استحکام پاکستان پارٹی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ مگر ماضی اور حال میں فرق یہ ہے کہ تب عوام میں اتنا شعور نہیں تھا، آج پی ٹی آئی کی تمام قیادت کو عمران خاں سے الگ کر دیا گیا مگر ووٹ بینک عمران خاں کے پاس ہی ہے، پارٹی چھوڑنے والے ہیرو سے زیرو ہوگئے، آج الیکشن ہوجائیں تو سب کو اپنی اپنی مقبولیت کا بخار اتر جائے گا۔ اگر عوامی رائے کے بغیر نئی حکومت قائم ہو بھی گئی تو ملکی مسائل حل ہونگے، جمہوریت مضبوط ہوگی نہ ہی ملک سے غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ ہوسکے گا، آئی ایم ایف کے شکنجہ سے جان چھڑائی جاسکے گی اور نہ ہی عوام کو بنیادی انسانی حقوق مل سکیں گے۔

جواب دیں

Back to top button