
سی ایم رضوان
75سالہ ملکی تاریخ میں اکثر نئی سیاسی جماعتوں کی بنیاد پڑتی رہی ہے۔ ہمارے یہاں عمومی طور پر انتخابات سے قبل کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی توڑ پھوڑ سے نیا سیاسی اتحاد قائم ہوتا یا نئی پارٹی کی بنیاد پڑتی رہی ہے۔ 2018 کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ بلوچستان میں ’’ بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ کی بنیاد پڑی اور جنوبی پنجاب میں صوبہ محاذ اتحاد بنا جو بعد ازاں پی ٹی آئی میں ضم ہوا۔ بظاہر 2018کے الیکشن سے قبل سیاسی سطح پر جس طرح کی ہلچل ہوئی، ویسا ہی کچھ موجودہ دنوں میں جاری ہے لیکن نتائج ہو سکتا ہے مختلف ہوں۔ ابتداء کے طور پر استحکام پاکستان نامی پارٹی وجود میں آئی ہے مگر اس کے بعد بھی ایسا کچھ ہونا ممکن ہے کیونکہ یار لوگوں کے نزدیک سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔
جہانگیر خان ترین کی اہمیت 2018الیکشن کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سازی کے لئے بڑی نمایاں رہی تھی، اب وہ پھر سیاسی میدان میں اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ انہوں نے 9مئی کے بعد کی صورتحال کے تناظر میں سیاسی روابط کا سلسلہ تیز کیا تھا جس کا نتیجہ اس ’’ استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کی صورت سامنے آ چکا ہے۔ انتخابات سے قبل ایک خاص سیاسی موسم میں اس پارٹی کا قیام اور اعلان نئی بات نہیں۔ اس سے قبل بھی ملکی تاریخ میں اس نوعیت کی پارٹیاں وجود میں آتی رہی ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طول دینے کے لئے اس وقت کے گورنر جنرل اور ملک کے پہلے صدر سکندر مرزا کو ایک پارٹی کی ضرورت پڑی۔ یہ وہ دَور تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ کمزور پڑ چکی تھی۔ سکندر مرزا نے ستمبر 1956میں ریپبلیکن پارٹی کی بنیاد رکھی اور اس کے نائب صدر بن گئے۔ مگر یہ پارٹی آگے چل کر کوئی خاص مقبولیت حاصل نہ کر سکی۔ اس کے بعد 1962میں جنرل ایوب خان نے ایک سیاسی جماعت ’’ کنونشن مسلم لیگ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کی تشکیل میں مسلم لیگ کے اس وقت کے کئی سرکردہ رہنمائوں نے ایوب خان کا ساتھ دیا مگر یہ سیاسی جماعت ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ اپنی تشکیل کے فقط آٹھ سال بعد 1970کے انتخابات میں کنونشن مسلم لیگ نے قومی اسمبلی کی 124 سیٹوں پر اپنے اُمیدوار کھڑے کیے، مگر یہ جماعت محض دو سیٹیں ہی جیت سکی اور اِن انتخابات کے بعد یہ جماعت قصہ پارینہ بن کر رہ گئی۔ واضح رہے کہ ایوب خان کی یہ جماعت زمینداروں، صنعتکاروں اور مراعات یافتہ طبقات کے بے تحاشا اختیارات کی مالک حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات جوڑے رکھنے اور سرکاری سرپرستی حاصل کرنے کا تو ایک بہترین ذریعہ ضرور تھی مگر اس نظام کا یہ رُخ بھی اقتدار کو سہارا نہ دے سکا اور عوامی احتجاج کے شروع ہوتے ہی ایوب خان کے بھرتی کئے ہوئے سیاسی پرندے یکے بعد دیگرے اڑنا شروع ہو گئے۔
پھر جنرل ضیا کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد ملک کے مقتدر حلقوں نے عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کِیا۔ اگرچہ اس وقت بھی شد و مد سے یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ جنرل ضیا کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اسٹیبلشمنٹ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہے مگر ان انتخابات سے قبل 1988میں اُن سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کِیا گیا جو ضیا کے افکار کی آئینہ دار تھیں۔ اس پلیٹ فارم کو اسلامی جمہوری اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس نئے سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل کا بنیادی مقصد پیپلز پارٹی کے خلاف نئی صف آرائی کرنا تھا۔ 1985کے الیکشن جنرل ضیا نے غیر جماعتی بنیادوں پر کروائے تھے مگر 1988کے الیکشن میں اُن کو پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں ایک سیاسی جماعت کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں اسی آئی جے آئی کے بطن سے ایک عدد مسلم لیگ پھوٹی۔ پھر جب جنرل مشرف نی اکتوبر 1999میں اقتدار پر قبضہ کیا اور 2002میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا تو اس نے مسلم لیگ ن کے رہنماں کو توڑ کر مسلم لیگ ق کی تشکیل کی۔ اس نئی جماعت نے بھی مشرف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ق لیگ نے اگرچہ پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد اپنی پہلی سی مقبولیت کھو دی مگر یہ جماعت آج کے سیاسی منظرنامہ میں بھی اہم فیکٹر کے طور پر موجود ہے۔ اس سے قطع نظر کہ پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت کے مابین بظاہر فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔ اسی طرح مارچ 2018میں بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ) کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اس پارٹی میں بھی مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان کو جگہ ملی اور ق لیگ میں شامل کئی رہنما بھی اس میں شامل ہوئے۔ 2018کے صوبائی انتخابات کے نتیجے میں وزارتِ اعلیٰ، بلوچستان عوامی پارٹی کے حصہ میں آئی۔ اس جماعت کا قیام بھی انتخابات سے فقط چار ماہ پہلے عمل میں آیا تھا۔
مختلف ادوار میں سیاسی اتحاد اور جماعتیں بنتی ٹوٹتی رہیں۔ مختلف سیاسی ادوار اور ادوارِ آمریت میں نت نئے سیاسی بندوبست کیے جاتے رہے۔ اب یہ استحکام پاکستان پارٹی وجود میں آئی ہے۔ بظاہر اس میں بڑی تعداد میں وہ سیاسی رہنما شامل ہیں جو نو مئی کے واقعہ سے قبل تحریک انصاف کا حصہ تھے لیکن اس نئی پارٹی کی بنیاد صرف 9مئی کے واقعات کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انتخابی سیاست کے پیش نظر پاکستان میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں تقریباً مصنوعی طریقوں سے تشکیل پاتی رہی ہیں۔ اگر تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی جماعتوں کے پیچھے طاقتور لوگ ہوتے ہیں جو مکمل پلاننگ کرتے ہیں اور نئی جماعت کا سٹرکچر ڈیزائن کرتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہوتے ہیں ہم سب کو معلوم ہے۔ جن لوگوں نے آئی جے آئی کو بنوایا تھا، جن لوگوں نے مسلم لیگ ق کو بنوایا تھا سب جانتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ موجودہ دور میں یہ استحکام پاکستان پارٹی کنگز پارٹی بن جائے کیونکہ یہ پارٹی جیتنے کے لئے کم اور پی ٹی آئی کے تابوت پر آخری کیل ٹھونکنے کے لئے زیادہ استعمال ہو گی اور اگر بالفرض یہ کنگز پارٹی ہے تو ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ یہ سیاستدان آخر ان طاقتوں کے بچے جمورے کیوں بنتے ہیں۔ شاید یہی سوال اس استحکام پاکستان پارٹی کے شرکاء کو تقریب رونمائی میں آنکھیں اونچی کرنے اور طمطراق سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔ لیکن بقول یوتھ بریگیڈ کے یہ لیڈر اس وقت بڑے مجبور اور دبائو کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی ملکی سیاسی نظام کو استحکام کے لئے ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی یا یہ سب بھی پولیٹیکل انجینئرنگ کا پُرانا کھیل ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں نئی سیاسی جماعتوں کا قیام صرف انتخابات کے وقت ہی نہیں ہوتا بلکہ اُس سے پہلے بھی یہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ جینوئن تحریک یا ضرورت کے نتیجے میں یا کچھ لوگوں کی مخلصانہ کوششوں کے نتیجے میں سیاسی جماعت وجود میں آئے۔ ماضی میں شاید چند جماعتوں کی تشکیل ممکن ہے کہ جینوئن ہوئی ہو مگر تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ عموماً ایسا نہیں ہوا۔ اگر سکندر مرزا کی ریپبلیکن پارٹی کی بات کریں تو یہ اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ یعنی سکندر مرزا اور اُن کے ساتھیوں کی سوچ کا نتیجہ تھی۔ اسی طرح ان پارٹیوں میں شامل ہونے والوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے بھی اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو محفوظ کرنا اور اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ ایسے تمام لوگ نئی پارٹی میں جمع ہو کر اُس کو اور خود کو تقویت دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس وقت اگر استحکام پاکستان پارٹی کسی پولیٹیکل انجینئرنگ کی کوشش ہے تو یہ کوشش اُس طرز پر موثر نہیں جس طرز کی 2018میں تھی۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ اس استحکام پاکستان پارٹی میں الیکٹیبلز زیادہ ہیں اور اس پارٹی کو طاقت دلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے اس ضمن میں یہ بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ الیکٹیبلز تو پارٹیاں بدل کر ایک پارٹی سے دوسری میں جا سکتے ہیں مگر ووٹرز اب ہو سکتا ہے اس عمل سے متنفر ہو جائیں۔ ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ 2018 کے انتخابات سے قبل ہوا کیا اس نئی پارٹی کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہو گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کا رویہ، اپوزیشن اور حکومت میں ہوتے ہوئے تبدیل ہو جاتا ہے۔ 2018کے الیکشن میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف کے ساتھ پولیٹیکل انجینئرنگ ہوئی تھی جبکہ آنے والے الیکشن کے بعد شاید ہم یہ بھی کہہ سکیں گے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو 2018میں مذکورہ تینوں جماعتوں کے ساتھ ہوا تھا۔
پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقوں کی ہمیشہ سے یہ عمومی سوچ رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت بالخصوص نئی سیاسی جماعت اقتدار کی راہداریوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی۔ اس عمومی سوچ کے پیچھے ایک بڑی وجہ شاید یہ رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی ضرورت کے تحت بعض سیاسی جماعتوں کی تشکیل کرتی رہی ہے۔ اس حوالے سے گو کہ جہانگیر ترین اس وقت نااہل ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ اِن کو طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس میں حقیقت ہے یا نہیں لیکن تاثر کے حوالے سے اس میں اہم بات یہ ہے کہ اگر تاثر نہ ٹوٹے تو بہت سے لوگوں کو یہ پارٹی اپنی طرف کھینچے گی، اُن کو متاثر کرے گی جن کو اقتدار میں رہنا ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی ایسی جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں، جس کے اُوپر طاقتوروں کا سایہ ہو۔ حالانکہ کہ ایسی جماعتوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ بھی اس ملک کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں جس طرح کنگز پارٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ ویسے ہی یہ ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ جس طرح کہ اب پی ٹی آئی ٹوٹ چکی ہے۔ لیکن اس کے بطن سے پیدا ہونے والی اس پہلوٹھی کی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کے معرضِ وجود میں آتے ہی کئی سوالات نے جنم لیا ہے یقیناً کچھ سوالات کے جوابات مستقبل قریب میں مل جائیں گے مگر کئی سوالات آئندہ بھی جواب سے محروم ہی رہیں گے۔ جس طرح کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔