
سی ایم رضوان
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے۔ جس میں 9مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنانِ کو دیکھا جاسکتا ہے جو پاک فوج کے ایک عظیم شہید کے مجسمے کو انتہائی بے ادبی اور بے دردی سے توڑ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر کا مجسمہ ہے۔ جس نے 5دن بھوکے پیاسے رہ کر کارگل کے محاذ پر انڈین آرمی کے پورے ڈویژن کو روکے رکھا تھا۔ اس شہید کے جسد خاکی کو جب کارگل سے نیچے اتارا گیا تھا تو انڈین کور کمانڈر نے اپنے ماتحت بھارتی فوجیوں کو اس شہید کی لاش مسخ کرنے اور توہین کرنے سے روک دیا تھا اور گھر سے چندن منگوا کر اس شہید شیر خان کی داڑھی پر لگایا اور ایک پرچی شیر خان شہید کی جیب میں ڈال دی تھی جس پر لکھا تھا ’’ میں بطور انڈین کور کمانڈر پاکستانی حکومت کو ریکمنڈ کرتا ہوں کہ اس بہادر جوان کو نشان حیدر سے نوازا جائے‘‘۔ لیکن آج اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے عشاق کتنے فخر سے پہلے شیر خان کے مجسمے کا سر جدا کرتے ہیں۔ پھر انتہائی نخوت سے اس مجسمے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں. افسوس کہ اس کے بعد آج تک عمران خان سمیت کسی بھی انصافیئن نے اس قومی جرم پر ذرا سا بھی افسوس نہیں کیا۔ بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے اس حملے سے کور کمانڈر ہاس لاہور میں واقع جناح ہاس بھی ہے حالانکہ ان کو علم ہونا چاہیے کہ قومی تاریخ کے اوراق میں اس جناح ہائوس کے متعلق سب کچھ لکھا ہوا ہے مگر ان کو تو ہوش ہی اس وقت آئی جب عمران خان نے ان کا قومی شعور ضبط کر کے انہیں جھوٹی تبدیلی کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ ان جاہلوں کو علم ہونا چاہئے کہ پاکستان تو ہمیشہ آباد رہے گا اور اپنے ہیروز کا تقدس ہمیشہ مقدم رکھے گا۔ عمران خان جیسے لوگ تو آتے جاتے رہیں گے لیکن پاکستان کی انٹیلی جنس ہمارا فخر اور قیمتی سرمایہ ہے اور رہے گا۔ پاکستان کے گمنام ہیروز کا نام بھی تاقیامت عندہ و تابندہ رہے گا۔ یقیناً پاکستان کا ہر محب وطن شہری پاکستان کی بقا کے لئے افواج پاکستان کا ساتھ دیتا رہے گا۔
عمران خان کی گرفتاری پر ’’ عمران خان نہیں تو نعوذ باللہ پاکستان بھی نہیں ‘‘ کا ناپاک سلوگن رکھنے والے دریدہ دہن جہلاء کی جانب سے قومی غیرت و حمیت کی دھجیاں بکھیرنے کے واقعات لاتعداد ہیں۔ ان میں ہمارے عسکری افتخار کی متعدد یادگاروں اور ملک و ملت کے عظیم استعاروں کے ساتھ جو مذاق، کھلواڑ اور بد تہذیبی کی گئی اس کی توقع کسی دشمن سے بھی نہیں رکھی جا سکتی۔ مگر ہمارے چند سابقہ اختیار والوں کے پالے پوسے اور لاڈلے عمران خان کے تربیت یافتہ نام نہاد سیاسی کارکنوں نے یہ سب کیا اور اپنی گھٹیا کارروائیوں کے ذریعے بتا دیا کہ وہ اپنے حقیر سے سیاسی فائدے کے لئے ملک و ملت کا کس قدر نقصان کر سکتے ہیں۔ ان جہلاء کا ایک نشانہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ میں واقع جناح ہاس ہے۔ اس عمارت کے اندر اور باہر کی دیواریں اب سیاہ ہو چکی ہیں جبکہ یہاں موجود ایک مسجد جسے اولڈ مسجد کہا جاتا ہے اس کے دروازوں اور کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ مسجد کی جالیاں بھی جلا دی گئی ہیں۔ یعنی یہ قومی مجرم گھٹیا انتقام میں دینی تقدس بھی بھلا بیٹھے اور مسجد کی توہین کر ڈالی۔ لاہور کے اس جناح ہاس جو کور کمانڈر ہائوس بھی کہلاتا ہے، کو نو مئی کی شام کچھ مشتعل افراد نشانہ بنانے کے لئے اس گھر میں داخل ہوئے۔ یہاں توڑ پھوڑ کی اور گھر کے اندر آگ بھی لگائی۔ یہ واقعہ اسلام آباد عدالت میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو گرفتار کئے جانے کے خلاف احتجاج کے طور پر ہوا جس کی منصوبہ بندی پہلے سے عمران خان اور فوج کے ایک افسر نے مبینہ طور پر کی تھی۔ جناح ہاس میں اس وقت رہائش کے تمام کمرے اور سامان جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔ جن میں دیواروں پر لگے سوئچ بورڈز تک شامل ہیں۔ گھر میں واقع دونوں جمز میں موجود تمام سامان جل چکا ہے۔ سوئمنگ پول کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس کی گھڑیوں کو بھی توڑا گیا ہے۔ گھر کی انیکسی اور پارکنگ لاٹ بھی آگ سے جھلس چکے ہیں۔ اس گھر میں قائد اعظم کی کچھ یادگار اشیا جن میں ان کا پیانو اور تصاویر شامل تھیں۔ بھی مشتعل افراد کے ہاتھوں جل چکی ہیں۔ اس گھر کے باہر کی دیوار پر قائد اعظمؒ کی پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ کچھ تصاویر شیشے کے فریم میں آویزاں کی گئیں تھیں، ان تصاویر کو بھی توڑ دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس گھر کی جانب آنے والے عزیز بھٹی روڈ اور دوسری جانب سے الف لام میم چوک واقع ہیں۔ پاک فوج کے اہلکاروں کے مطابق اب تک یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ تاہم قومی غیرت کی جو دھجیاں بکھر گئی ہیں ان کو سمیٹنے کے لئے پاک فوج کے سپہ سالار حافظ سید عاصم منیر خود میدان عمل میں آ چکے ہیں۔ صد شکر کہ انہیں سول حکومت کے ساتھ ساتھ پوری قوم کی حمایت اور تعاون حاصل ہے۔ جناح ہاس کی تاریخ کی بات کریں تو 4.68ایکڑ پر محیط یہ گھر دراصل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے تقسیم ہند سے پہلے خریدا تھا۔ پاک فوج کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق قائد اعظم نے یہ گھر موہن لال نامی شخص سے 12اکتوبر 1943کو ایک لاکھ 62ہزار پانچ سو روپے میں خریدا۔ اتفاق یہ ہے کہ قائد اعظم اس گھر میں کبھی رہائش نہ رکھ سکے تھے کیونکہ وہ جب بھی لاہور آتے تو نواب افتخار حسین خان ممدوٹ کی ڈیوس روڈ پر واقع رہائش گاہ پر ٹھہرتے۔ 1944ء میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاہور نے یہ گھر وقتی طور پر فوج کے استعمال کے لئے لیا اور اسے آفیسرز میس کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ تقسیم ہند تک یہ اسی مقصد کے لئے استعمال ہوا لیکن اس کے بعد قائد اعظم نے اپنے نمائندے واجد علی جو کہ مراتب علی کے بیٹے تھے ( مراتب علی برٹش انڈیا آرمی کے کنٹریکٹر تھے) کے ذریعے اس گھر کو تقسیم ہند سے قبل واپس اپنی ملکیت میں لینے کی جدوجہد کی اور بالآخر 1948میں یہ گھر انہیں واپس مل گیا۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد 1950ء میں یہ بنگلہ وزارت دفاع نے پانچ سو روپے کی لیز پر لیا اور اسے جنرل آفیسر کمانڈنگ 10ڈویژن کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ 1959ء میں وزارت دفاع نے قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح سے یہ گھر تین لاکھ 50 ہزار روپے میں خرید لیا۔ 1966ء سے اس گھر کو بطور کور کمانڈر ہاس استعمال کیا جانے لگا اور1976 ء میں اس گھر کو جناح ہائوس کا نام دیا گیا تھا۔
اس جگہ کے قومی و تاریخی تقدس سے بے بہرہ یوتھیوں کے اس پر حملے کے بعد محکمہ داخلہ پنجاب نے جناح ہائوس جلانے میں ملوث افراد کی تصاویر بھی جاری کیں۔ انہیں گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ جنہوں نے اپنے جرائم اور منصوبہ سازوں کے نام بھی بتا دیئے ہیں۔ فوجی راز افشاء کرنے اور فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے جرائم کے تحت کارروائی جاری ہے۔ پنجاب حکومت نے سول و عسکری تنصیبات میں توڑ پھوڑ کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بھی بنا دی ہے۔ خیال رہے کہ 9 مئی کو ان شرپسندوں نے جناح ہائوس لاہور ( کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ) پر حملہ کرکے اسے تباہ کردیا تھا اور سامان لوٹنے کے بعد اسے آگ لگادی تھی۔ حملہ آوروں نے قائداعظم کا پیانو، رائٹنگ ٹیبل، ڈیسک اور تلوار بھی جلا ڈالی تھی، یہ نوادرات بانی پاکستان نے حکومت پاکستان کو عطیہ کی تھیں اور اب بطور قومی ورثہ یہاں محفوظ تھیں۔ عمران خان نے حسب عادت اس جلائو گھیرائو اور بعض مقامات پر فائرنگ کا جھوٹا الزام ایجنسیوں کے افراد پر لگا دیا ہے جس کا ثبوت وہ قیامت تک نہیں دے سکتا۔ تاہم امید کی جاتی ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کی نگرانی خود آرمی چیف کریں گے اور ان وطن دشمنوں کو اس طرح سزا دلوائیں گے کہ آئندہ کسی شرپسند کو ایسا سوچنے کی بھی جرات نہ ہو۔