Ali HassanColumn

ہوش کے غالب آنے تک ؟ .. علی حسن

علی حسن

پاکستان کی قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کے باہر 15مئی کو جو کچھ ہوا وہ کچھ ایسا ہی تھا جو9مئی کو ہوا تھا۔ 9 مئی کو اسلام آ باد ہائیکورٹ سے عمران خان کی گرفتاری کے بعد مظاہرین نے جس انداز میں احتجاج کیا اور تشدد کا سہارا لیا، وہ نہایت افسوس ناک اور قابل مذمت تھا۔ ہنگامہ آرائی کی بجائے وہ ہی راستی اختیار کیا جانا چاہئے تھا جو بعد میں عمران خان کی عدالتوں سے ر ہائی کے لئے استعمال کیا گیا۔ عمران خان کی رہائی اور اس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں17مئی تک کی عبوری ضمانت دے دی۔ یہ دونوں اقدام پر پی ڈی ایم نے شدید برہمی کے رد عمل کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال جو پاکستان کے چیف جسٹس ہوتے ہیں، کے خلاف تو سوشل میڈیا پر مہم چلائی ہی جارہی تھی، ایسی مہم جس میں ان کے اہل خا نہ اور دیگر رشتہ داروں کے خلاف مہم جوئی کی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس گل اورنگزیب کو ننھیال اور ددھیال تک کو ادھیڑ دیا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا، کیا مقاصد تھے۔ خصوصا اعلی عدالتوں کے جج صاحبان کے بارے میں بہت سوچ سمجھ کر تبصرہ اور رد عمل ظاہر کرنا چاہئے ۔ عمران خان نے 9مئی کے تشویش ناک اور دل برداشتہ جلائو گھیرائو کے واقعات کے بعد ان واقعات کے ذمہ دار عناصر کی مذمت ہی نہیں کی بلکہ ان کا یہ بیان بھی آیا کہ اگر انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ایسا ہی رد عمل سامنے آئے گا۔ عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے بعد حکومتی حلقوں اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سخت لہجہ اور موقف اختیار کیا جس کا بر ملا اظہار 15مئی کو سپریم کورٹ پر دھرنے کے موقع پر کیا گیا۔ اگر فوج اور سپریم کورٹ کے خلاف سیاسی لحاظ سے شدید منقسم اور ایک دوسرے کے خلاف زبان استعمال کرنے سے نہیں چوکتے ہیں تو پھر ایسی صورت میں کیا ہوگا۔ کس قسم کی مثالیں بنائی جارہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بندیال نے 15مئی کی سماعت کے موقع پر جب سپریم کورٹ کے باہر دھرنا تھا، ایک بار پھر سیاسی عناصر کو مذاکرات کرنے کی نصیحت کی اور حکومت مخالف عناصر کی توقعات پر اوس پڑی۔ حالانکہ آج حکومت مخالف عناصر یہ توقع کر رہے تھے کہ کورٹ الیکشن نہ کرانے پر وزیر اعظم سمیت کئی لوگوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں گے۔ لیکن عدلیہ نے سماعت23مئی تک ملتوی کر دی۔ دھرنے میں ن لیگ کی رہنما مریم نواز نے یہ اعلان بھی کیا کہ انتخابات تو چیف جسٹس کے مستعفی ہونے کے بعد ہی ہوں گے۔ اگر اس اعلان کی روشنی میں بات کو دیکھا جائے تو کیا چیف جسٹس کی مقررہ مدت کے دوران انتخابات نہیں ہو سکتے۔ پی ڈی ایم کے دھرنے کے بارے میں عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے باہر جے یو آئی ( ف) کا ڈراما کیا جا رہا ہے، اس کا صرف ایک مقصد ہے تاکہ چیف جسٹس آئین کے مطابق فیصلہ نہ دیں۔ حکمرانوں نے جج، جیوری اور جلاد یعنی سزا پر عملدرآمد والا کردار بھی خود ہی سنبھال لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے صدر دروازے پر پی ڈی ایم کو دھرنا سپریم کورٹ سے نبرد آزما ہونا ہے جب کہ عمران خان کے بیانات اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانا ہے۔ ملک کے معمر صحافی اور دانش ور محمود شام نے تبصرہ کیا ہے کہ بہت خطر ناک ہے جو بھی ماسٹر مائنڈ، روز ہوا کا رخ بدل دیتا ہے، سب اداروں سیاسی جماعتوں کو چوکنا رہنا ہوگا ملک، وقار، ملی یکجہتی سب خطرے میں ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی صدارت میں پیر کے روز ہونے والے کور کمانڈروں کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاک فوج کی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت بھی مقدمے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذمے داروں کے خلاف پاکستان کے متعلقہ قوانین اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بھی مقدمات کئے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 9مئی کے فسادات کا الزام ایجنسیوں پر لگا دیا ہے۔ تحقیقاتی ادارے پولس اور دیگر دارے9مئی کی صورت حال کی ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد کر رہے ہیں۔ اپنے تازہ بیان میں عمران خان نے اپنی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے فسادات کا الزام ایجنسیوں پر دھر دیا۔ انہوں نے کہا کہ آتش زنی اور کچھ جگہوں پر فائرنگ ایجنسیوں کے افراد نے کی، ان کے پاس کسی بھی آزاد انکوائری کمیشن کو پیش کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ہنگامہ آرائی کرنے والے چاہتے تھے کہ تباہی پھیلائیں اور اس کا الزام پی ٹی آئی پر ڈالیں تاکہ کریک ڈائون کا جواز مہیا ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اور ان کی زوجہ بشری بی بی کو گرفتار کیا جاسکتا ہے، خود اْن پر بغاوت کا مقدمہ چلے گا اور 10سال کی قید ہوگی، ساتھ ہی ان کی جماعت پی ٹی آئی پر بھی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے تقریباً 7ہزار قائدین، کارکن اور خواتین کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ یہ تحقیق تک نہیں کی گئی کہ سرکاری عمارتوں کو نذرآتش کرنے میں کون ملوث تھا۔ اپنے ایک بیان میں الزام لگایا ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی اور واحد سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خون کے آخری قطرے تک لڑوں گا، ان کی غلامی سے موت بہتر ہے، ’’ مجرموں کے اس گروہ کی غلامی سے موت میرے لیے مقدّم ہے، اگر ہم خوف کے بت کے آگے سجدہ ریز ہوگئے تو ذلت اور شکست نسلوں کا مقدّر ٹھہرے گی‘‘۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو نہایت ہوش مندی کے ساتھ سپریم کورٹ ، فوج ، عوام، پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں کا خاص خیال رکھنا چاہئی اور گزشتہ ایک سال سے جاری سیاسی تماشہ کو ختم کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ میں جس تلخ اور ترش لہجوں میں تقاریر کی گئی ہیں، اس سے ایسا لگتا تھا کہ سیاست دان کوئی ذاتی بغض اور عناد رکھتے ہیں۔ اسی طرح جیسے عمران خان اپنے تلخ بیانات میں اپنا عناد ظاہر کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ بقول شاعر:
انا کی جنگ میں ہم نے جلا دیا کیا کیا
مفاد ذات اب تک گنوا دیا کیا کیا

جواب دیں

Back to top button