ColumnRoshan Lal

بیرونی قرض کا بے درد استعمال(1) .. روشن لعل

روشن لعل

 

بیرونی قرضوں پر انحصار نے ہماری معیشت کا یہ حال کر دیا ہے کہ ملک کا دیوالیہ ہونا اب عام لوگوں کے لیے بھی بعید از قیاس نہیں رہا۔ قرضوں میں جکڑی ہوئی ہماری معیشت کا اس وقت یہ حال ہے کہ روزمرہ ضرورتوں کے لیے بیرون قرض کی دستیابی نسبتاً چھوٹا جبکہ قرضوں کی واپسی کے لیے مزید قرض کا حصول ہمارا بڑا مسئلہ بن چکا ہے ۔ جن بیرونی قرضوں کی واپسی کے لیے ہمیں نئے قرضے درکار ہیں اگر کبھی ان کے تصرف کی تفصیل سامنے آ جائے تو فوراً یہ الفاظ لبوں پر آجاتے ہیں کہ بے رحم دل والے، بیرونی قرضوں کو یہاں مال مفت کی طرح لوٹتے رہے۔ بیرونی قرضوں کو مال مفت سمجھ کر کس طرح لوٹا جاتا رہا اس کی یہاں ایک چھوٹی سی مثال پیش کی جارہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اس ادارے میں سب سے زیادہ لوٹ مار ہوتی ہے جس کوسب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں یا جس کے ترقیاتی کاموں کے لیے بیرونی قرضوں کا خصوصی بندوبست کیا جاتا ہے۔ ایسے محکموں میں محکمہ انہار یہاں سرفہرست ہے۔ قیام پاکستان کے بعد زرعی پیداوار میں اضافہ کے لیے یہاں ہمیشہ محکمہ انہار کے نظام میں بہتری کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ اس ضرورت کے تحت محکمہ انہار کے لیے نہ صرف ہر نئے بجٹ میں پہلے سے زیادہ رقم مختص کی گئی بلکہ بار بار بیرونی قرضوں کا بندوبست بھی کیا جاتا رہا۔ محکمہ انہار اور ذرائع آبپاشی کی بہتری کے لیے جن عالمی اداروں نے سب سے زیادہ فنڈاور قرض فراہم کیے ان میںیو ایس ایڈ پروگرام، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اوورسیز اکنامک کوآپریشن فنڈ(OECF) جاپان اور ورلڈ بینک نمایاں ہیں۔
ورلڈ بینک کی 1994 میںجاری کردہ ایک رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا کے کچھ دیگر ملکوں کوبھی ان کے آبپاشی نظام میں بہتری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر قرض دینے میں دلچسپی ظاہر کی گئی تھی۔ رپورٹ میں پاکستان کے سوسال پرانے نظام آبپاشی میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کے ساتھ انہیںدور کرنے کے لیے سفارشات بھی پیش کی گئی تھیں۔ اس رپورٹ میں ہمارے نہری نظام کی سب سے بڑی خرابی ،تمام چھوٹی اور بڑی نہروں کے کناروں کا کچا ہونا بیان کی گئی اور کہا گیا تھا کہ نہروں کے کچے کنارے شکستہ ہونے کے سبب ان میں ڈیزائن کی گئی گنجائش کے مطابق پانی کا بہائو ممکن نہیں ۔ اس رپورٹ میں کسانوں کے متعلق یہ رائے دی گئی تھی کہ ان کو نہری پانی کی اہمیت اور قدرو قیمت کا کوئی احساس نہیں کیونکہ انہیں یہ پانی انتہائی ارزاں نرخوں پرفراہم کیا جاتا ہے۔شکستہ نہری نظام میں بہتری کے لیے ورلڈ بینک نے جو سفارشات مرتب کیں ان میں صوبائی حکومتوں کے ماتحت اریگیشن اینڈ پاور محکموں کی بجائے پراونشل اری گیشن اینڈ ڈرینج ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سینئے محکمے قائم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کچی آبی گزر گاہوں کو لائننگ کر کے پختہ کر نے سے نہ صرف سیم کی نذر ہونے والے پانی کا زیاں روکنا بلکہ بڑی نہروںاور چھوٹے چھوٹے کھالوں کے آخری حصوں پر موجودزرعی زمینوں تک روانی سے پانی کی فراہمی بھی ممکن ہو سکے گی۔
ورلڈ بینک کی مذکورہ رپورٹ میں ملک کے چاروں صوبوں کے اندر خود مختار نہری ادارے قائم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔اس تجویز کے مطابق پنجاب میں پیڈا(پنجاب اری گیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی) سندھ میں سیڈا، بلوچستان میں بیڈا اور سرحد میں فیڈا کا قیام عمل میں آیا تھا۔زیر نظر تحریر صرف پنجاب میں قائم ہونے والی اری گیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی کے متعلق ہے کیونکہ دیگر صوبوں کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہاں ار یگیشن نظام کی بہتری کے نام پر لیے گئے قرضوں کو کس طرح استعمال کیاگیا۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو یہاں ابتدائی طور پر دو اہم نہروں لوئر باری دو آب (LBDC) اور لوئر چناب کینال ایسٹ (LCCE) پرکام کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان نہروں کی پختگی کے لیے ہونے والے کام کے متعلق کہا گیا تھا کہ ان پر 2001 میں شروع ہونے والا کام5 200تک مکمل کر لیاجائے گا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پنجاب میں پیڈا(پنجاب اری گیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی) کے قیام سے سے پہلے6 197میں بھی آن فارم واٹر مینجمنٹ پروگرام (OFWMP) کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا گیا تھا جس کے لیے قرض ایشین ڈویلپمنٹ بینک، یو ایس ایڈ پروگرام اور او ای سی ایف جاپان نے فراہم کیا تھا۔ اس پراجیکٹ کے تحت کسانوں کی واٹر یوزر آرگنائزیشنیں (WUOs) بنائی گئی تھیں جو قرض میں حاصل کیے گئے فنڈز استعمال ہونے کے فوراً بعد غیر فعال ہو گئی تھیں۔اس کے بعد 1982 میں بھی بیرونی قرضوں کے تحت اری گیشن ری ہبیلی ٹیشن پروگرام (ISRP) کے نام سے ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا گیا جس کا حشر او ایف ڈبلیو ایم پی جیسا ہی ہوا تھا۔ مذکورہ دونوں منصوبوں پر جاری کام کے دوران کہا تو یہ جاتا رہا کہ ان کی تکمیل سے آبپاشی نظام میں مثالی بہتری آئے گی لیکن جب قرضوں کی صورت میں لیے گئے فنڈز ختم ہو گئے تو ان کے تحت بنائی گئی کسانوں کی تنظیمیں بھی باقی نہ رہیں۔ ان منصوبوں کے ضمن میں بیرونی قرضوں کی فراہمی ختم ہونے کے بعد یہ ہوا تھا کہ جو تعمیراتی کام مکمل کیے گئے تھے ان کے آپریشن اور مرمت کا کوئی انتظام باقی نہ رہا اور بعد ازاں تمام انفراسٹرکچر مسلسل شکست و ریخت کا شکار ہو کر مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گیا۔
آبپاشی نظام میں بہتری کے لیے قرضوں سے شروع کیے گئے جو منصوبے ناکام ثابت ہو ئے ان کی ناکامیوں کی وجوہات جاننے کی تو یہاں کسی نے کوئی کوشش نہ کی مگر جب ورلڈ بینک نے اپنی 1994 کی رپورٹ جاری کی تو اسے دیکھ کر نئے منصوبوں کے لیے نئے سرے سے قرض حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ نئے قرض کے حصول کے لیے 1997میں پنجاب کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے عملی کوششوں کا آغاز کیا۔ ان کوششوں کے تسلسل میں پنجاب اسمبلی نے 1997 میں ایک قانون پاس کر کے پیڈا یعنی پنجاب اری گیشن ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی۔ پیڈا کو فعال بنانے کی رفتار میںزیادہ تیزی اس وقت آئی جب ورلڈ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں اسے 250 ملین ڈالر کے خرچ سے خود مختار ادارہ بنانے کا تخمینہ ظاہر کیا ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 250 ملین ڈالر کے تخمینے میں سے 50 ملین ڈالر پنجاب حکومت کے ذمے ہوگا جبکہ 25 ملین ڈالر کی رقم پیڈا کے تحت قائم ہونے والی فارمر آرگنائزیشنز (FOs) دیں گی۔ ورلڈ بنک نے باقی ماندہ175 ملین ڈالر کی رقم قرض کی صورت میں دینے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی۔ ورلڈ بنک نے اپنے ذمے لی گئی رقم میں سے 100 ملین ڈالر منصوبے کے آغاز میں اور باقی ماندہ پراجیکٹ کی تکمیل کے مختلف مراحل میں دینے کا کہا۔ ورلڈ بنک سے قرض میں ملنے والی اس رقم کا پنجاب میں کس طرح بے دردی سے استعمال کیا گیااس کا ذکر آئندہ قسط میں کیا جائے گا۔ (جاری ہے)

جواب دیں

Back to top button