جادوگر سیّاں .. ناصر نقوی

ناصر نقوی
معاشی اور سیاسی بحران بڑھتا جا رہا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ معاملات میں بہتری کیسے آئے گی؟ سب اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ ملک و ملت کی کسی کو فکر نہیں۔ سیاسی لیڈر اور پارٹیاں ایک دوسرے پر برتری اور سکورنگ کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن بات بن نہیں رہی کیونکہ اقتدار کی وادی تک جانے والے راستوں پر ایسی رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ مقبول ترین لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والے سابق وزیراعظم عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں اعلان کے باوجود نہیں توڑ سکے۔ لہٰذا حالات کے مارے زخمی ٹائیگر اپنی رہائش گاہ زمان پارک میں سخت سکیورٹی کے حصار میں محصور ہو کر رہ گئے۔ ان کے ناپسندیدہ سے پسندیدہ ترین بننے والے شیخ رشید احمد کی پیش گوئیاں فلاپ ہو گئیں۔ ا ن کی یقین دہانی تھی کہ عمران خان آئندہ دس سال بھی اقتدار میں رہیں گے تاہم شیخ رشید احمد نے یہ سچ بول دیا کہ ساری زندگی پیاروں کے پیارے رہنے کے باوجود اب وہ مہینوں سے پیاروں سے دور ہیں۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ جس قدر آج مایوس ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ اس بیان سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی غلطی پر دُور کئے گئے ہیں، از خود دُور نہیں ہوئے۔ ان کی شخصیت جس قدر ’’ڈیوٹی فل‘‘ تھی اس کی نوازشات پر وہ ایک درجن سے زیادہ مرتبہ وفاقی وزیر بنے لیکن وزارت داخلہ میں غلطی کی گنجائش نہیں تھی اور انہوں نے پیاروں کی قربت میں وزارت داخلہ کو بھی ریلوے سمجھا، نہ زبان درازی میں احتیاط کی اور نہ ہی محکمے کی مجبوریوں کو سمجھا، لہٰذا سلیکٹرز کے معیار پر پورے نہیں اتر سکے، موسم بدلا، فضا بدلی لیکن شیخ رشید احمد کو عمران خان کی مدح سرائی کا سبق ایسا یاد تھا کہ وہ حالات کے تقاضوں کو سمجھے ہی نہیں، اپنی بین بجاتے رہے۔ یوں ماضی کے پیارے اور اپنے ’’پرائے‘‘ ہو گئے۔ عمران خان سے تو کسی حد تک راضی نامہ ہو گیا لیکن ’’جادوگر سیاں‘‘ دُور بلکہ بہت دُور چلے گئے۔ اب آپ سمجھ
گئے ہوں گے کہ جب ’’مرشد‘‘ ناراض ہو جائے تو اچھی بھلی روحانیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے شیخ رشید احمد کی پیش گوئی درست ثابت نہیں ہو رہی، حقیقی رابطے ہی ٹوٹ گئے۔ اس بات کا شدت سے شیخ صاحب کو احساس ہے ، اسی لیے شیخ پتر نے مالکِ کُل سے بیت اللہ شریف میں جا کر معافی تلافی کا سوچا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دنیا کے شریفوں سے بھی’’ تال میل‘‘ کی کوشش کسی مشترکہ دوست کے حوالے سے کی لیکن خاندان شریفاں نے انگلی تک نہیں پکڑائی، بدلے حالات میںعمران خان کے تمام منصوبے اور اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں گزشتہ دو ماہ ہرلحاظ سے بھاری گزرے، پنجاب تو کیا وہ اپنی خیبر پختونخوا کی نہ اسمبلی توڑ سکے، نہ ہی کوئی اور کامیابی حاصل کر سکے۔ لہٰذا روزانہ کی بنیاد پر اب صحافیوں سے ملاقات کر کے ’’پیش گوئی‘‘ شروع کر دی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نئے انتخابات مارچ، اپریل میں ہو جائیں گے۔ بشریٰ بی بی کی قربت اوران کے موکلوں کی سہولت سے ان کے ’’فالورز‘‘اسے درست سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے قریبی ذرائع ہی دعویدار ہیں کہ چودھری برادران ہر حال میں پیاروں کے پیارے ہی رہتے ہیں، انہوں نے ’’جادوگر سیاں‘‘ جنرل (ر) باجوہ کا نام نامی لینے سے پرہیز کا مشورہ دیا ہے پھر بھی عمران خان کی ضد میں ابھی تک یہ نام وقتاً فوقتاً منہ سے نکل جاتا ہے۔ چودھری برادران وردی سے اس حد تک پیار کرتے ہیں کہ انہوں نے اسی محبت میں زبردستی کے صدر پرویز مشرف سے ہمیشہ وفاداری نبھانے کا عہد واشگاف الفاظ میں برملا کیا تھا اور عمران خان کی تنقید پر بھی باجوہ صاحب کی خدمات کو خراج تحسین نہ صرف پیش کیا بلکہ ان کی خدمات تسلیم نہ کرنے والے کو صاف صاف محسن کش قرار دے دیا۔
ان حقائق کی روشنی میں پی ٹی آئی کے آدھی درجن سے زائد ارکان اسمبلی کا خیال ہے کہ پرویز الٰہی انتہائی خوبصورتی سے اپنی سیاسی چال میں عمران خان کو ماموں بنا رہے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کے پہلو میں بیٹھ کر اسمبلیاں توڑنے کا اعلان بھی کرایا اور جب انہیں گورنر پنجاب نے ڈی نوٹیفائی کیا تو لاہور ہائی کورٹ جا کر اسمبلیاں نہ توڑنے کی تحریری یقین دہانی بھی کرا آئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اقتدارِ پنجاب کے شہسوار پرویز الٰہی ہیں یعنی پی ٹی آئی کی اکثریت کے باوجود عمران خان نہیں، اب صورت حال ختم کرانے کیلئے سپریم کورٹ جانے کی تیاری میں ہے۔ فی الحال گومگوں کی حالت ہے کہ کل کیا ہو گا کسی کو معلوم نہیں، پھر بھی سابق وزیراعظم عمران خان کے دعویٰ معنی خیز ہیں۔ مجھے پتا تھا کہ ارشد شریف کو قتل کر دیا جائے گا، میں کئی ماہ پہلے یہ جانتا تھا کہ جادو کی چھڑی میرے اقتدار کے خلاف ہے، جنرل (ر) باجوہ نے آصف زرداری اور مراد شاہ سے ڈیل کر رکھی تھی، پہلے ہی اندازہ تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی لہر آئے گی۔یہ بھی ان کا دعویٰ ہے کہ ملک معاشی بحران کی دلدل میں دھنسنے والا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وزیرآباد سے گجرات کے درمیان ان پر قاتلانہ حملہ ہو گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے نہ اقتدار بچانے کی کوشش کی اور نہ ملکی سیاسی و معاشی مسائل کے حل کیلئے کوئی مشترکہ حکمت عملی بنائی، صرف حالات کے دھارے میں بہتے رہے کہ جس نے اقتدار کی کرسی تک پہنچایا ہے وہ اس کی حفاظت بھی کرے گا اس لیے کہ ’’جادوگر سیاں‘‘ اس کے ماتحت ہے لہٰذا آنکھیں بھی دکھائیں اور خواہش کا اظہار بھی کیا پھر بھی بات نہیں بنی، ردعمل میں گلہ شکوہ شروع کر دیا کہ مجھے کیوں نہیں بچایا؟
ہماری حکومتیں اورسیاستدان ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا سہولت کار سمجھتے ہیں، حقیقت بھی یہی ہے کہ جانے اور آنے والی دونوں حکومتوں کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ کی پسند ناپسند پر ڈالی جاتی ہے۔ سابق سپہ سالار جنرل (ر) باجوہ نے عمران خان کی محبت اور ناراضگی میں ایسے حالات جنم دئیے کہ دونوں جانب کی دوستانہ ’’چاند ماری ‘‘ نے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہنے دیا بلکہ باجوہ صاحب کو غلطی تسلیم کر کے نیوٹرل ہونے کا اعلان بھی کرنا پڑا۔ اگر اس پوزیشن میں باجوہ صاحب حوصلہ کر کے قوم سے اپنے کیے کی معافی بھی مانگ لیتے تو بداعتمادی کی فضاء کا خاتمہ ہو جاتا، لیکن ہمارے ہاں تو تضادات ہی اتنے ہیں کہ پورا سچ نہ کوئی بولنے کا رسک لیتا ہے اور نہ ہی کوئی یقین کرنے کو تیار ہے۔ مملکت میں پارلیمانی جمہوری نظام ہے لیکن سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی لڑائی لڑنے والی کسی سیاسی جماعت میں جمہوریت نہیں ، محض عہدیداروں کی نامزدگی سے کام چلایا جاتا ہے۔ دھرتی ماں سرزمین پاکستان سے کھلواڑ ہو رہا ہے اگر پاکستان کے حق میں پورا سچ بولنے کی ہمت کروں تو پارٹی کے لوگ ہی گریبان پکڑ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ریاستی خطے کو وسعت اور طاقت سے مالا مال بنایا۔ اس کا فرمان ہے کہ’’ جستجو تو کر، تسخیر میں کروں گا‘‘۔ پھر بھی ہم لوگ شخصی آمریت اور پارٹی کی آمریت سے دھرتی ماں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں ۔ ہم اور آپ جمہوری اقدار کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن اپنی جماعت میں نامزدگی اور فیک الیکشن کرانا حق سمجھتے ہیں۔ جمہوریت کا حسن یہ بھی ہے کہ ہربات سے اتفاق ضروری نہیں، اپوزیشن کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، لیکن ہر چیز میں دوغلا پن ہے۔ لہٰذا جمہوریت چل رہی ہے منتخب ارکان اور حکومت مخالفین پارلیمنٹ میں جاتے نہیں پھر بھی جمہوریت قائم ہے۔ حقیقی بات نہیں کی جا رہی، فروعی باتوں پر ایک دوسرے کو غدار اور سکیورٹی رسک کہا جاتا ہے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر بہت کچھ وہ کیا گیا جس کا ریاست مدینہ میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وہاں خلیفہ وقت سے چادر اور لباس کا حساب پوچھا جاتا تھا، یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آئین دینے والے بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ پھر بھی جمہوریت قائم ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے آئین پاکستان کو توڑا پھر روندا لیکن جمہوریت پسند نے اس کی آواز میں آواز ملائی، اس نے بھی اسلام ازم کا پرچار کیا، کسی نے نہیں کہاہمسایہ بھوکا ہو تو روٹی حرام ہے۔ میں نے محترمہ بے نظیر شہید کو کہاکہ غریب کی حالت بدلنے کیلئے بھٹو صاحب کا نظریہ سوشلزم بہترین ہے ۔ جواب ملا نام نہ لینا کفر کا فتویٰ لگ جائے گا۔ جس ملک میں ٹائی لگانے سے اسلام خطرے میں پڑ جائے وہاں کس طرح سمجھایا جائے کہ ظلم سے ریاستیں نہیں چل سکتیں، ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے اچھے بُرے معاہدے میں قرضوں کی ادائیگی اور معاشی بدحالی سے چھٹکارے کیلئے سب کچھ بیچا جا رہا ہے۔ خطرہ ہے کہ کہیں ایٹم بم بھی نہ بیچ دیا جائے۔ یہ خدشہ ہے سابق گورنر لطیف کھوسہ کو، ہمیں اور آپ کو تو خدشہ لاحق ہونا ایک فطری عمل ہے ۔ حکومت آئی تھی مہنگائی سے نجات دلا کر ریلیف دینے کیلئے، اب اس کی تمام کوششیں ہیں اقتدار کو طول دینے کی، تضاد تو واضح سامنے موجود ہے۔ عمران خان اور ان کے حواری جلد الیکشن سے اس بحرانی دور کا علاج چاہتے ہیں لیکن یہ فارمولا نہ تو عام آدمی کی سمجھ میں آ رہا ہے اور نہ ہی جادو کی چھڑی رکھنے والے ’’جادوگر سیاں‘‘ کو، پھر بھی خانِ اعظم نیوٹرل سے درخواست گزار ہیں کہ آپ ایک قدم آگے بڑھ کر ملک و ملت کو ریلیف دلائیں اور ان کا جواب نہیں، صاف جواب ہے کہ ’’ہمیں تم نے منہ دکھانے جوگا دے دیا‘‘ ، اب جو بویا ہے خود کاٹو، جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘‘ جادو کی چھڑ ی میں بھی پہلے سی کرامات نہیں…