سیلابی پانی کا نکاس کیوں نہیں؟ .. روشن لعل

روشن لعل
جولائی ، اگست 2022 کے دوران برسنے والی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے آ نے والے سیلاب نے گلگت بلتستان سمیت خیبر پختونخوا کے سوات، پنجاب کے راجن پور اور ڈیرہ غازی خان، قریبا ً مکمل بلوچستان اور پورے سندھ میں اس قدر تباہی برپا کی کہ پوری دنیا ہماری طرف متوجہ ہو گئی۔اپنی معیشت کی تباہی طشت ازبام ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے حکمرانوں نے بیرونی دنیا کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہ رکھی کہ ان کی امداد کے بغیر سیلاب سے تباہ حال لوگوں کی بحالی کسی طور ممکن نہیں ہو سکے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی جتایا کہ ہم پر نازل ہونے والی تباہی ہماری اپنی غلطیوں کا نہیں بلکہ صنعتی طاقتوں کے ان ناعاقبت اندیش افعال کا نتیجہ ہے جو ماحولیاتی آلودگی، غیر معمولی بارشوں اور تباہ کن سیلاب کی صورت میںظاہر ہورہاہے۔ تباہ کن سیلاب کے باوجود شیخ رشید اور عمران خان جیسے لوگوں نے بیرون دنیا کو صرف پاکستان کی امداد کرنے سے ہی منع نہ کیا بلکہ یہ دعویٰ بھی کر دیا تھا کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کو کوئی پھوٹی کوڑی بھی نہیں دے گا ۔ اس طرح کی باتوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے بیرونی دنیا نے کافی فراخدلی سے ہماری مدد کی جس کیلئے ہالی ووڈ اداکارہ انجیلنا جولی اور اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل انتونیو گوتریس نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔
انتونیو گوتریس کی کوششوں کے مرہون منت، اقوام متحدہ صرف ہماری بیرونی امداد کیلئے ہی متحرک نہیں ہوا بلکہ ابھی تک اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ ہمارے سیلاب متاثرین اب کس حال میں ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جاری کردہ یہ رپورٹ انتہائی تشویش ناک ہے کہ 80 لاکھ کے قریب سیلاب متاثر ین، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے ، ابھی تک نکاس نہ کیے جانے والے سیلابی پانی کے قریب رہنے پر مجبور ہیں۔ سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی تو ملک کے کسی بھی صوبے میں نہیں ہو سکی مگر ایسا صرف سندھ کی حد تک ہے کہ وہاں کئی علاقوں سے ابھی تک پانی کا نکاس نہیں ہو ا۔سندھ میں دریا کے بائیں کنارے سے آگے بھی کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں سے سیلابی پانی نہیں نکالا جاسکا مگر دائیں کنارے پر موجود خیر پورناتھن شاہ، قمبر، شہداد کوٹ دادو اور جوہی وہ علاقے ہیں جو ابھی تک بری طرح سے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ سیلاب نے سندھ میں 2010 کے سیلاب سے بڑھ کر تباہیاں برپاکیں مگریہ درست ہونے کے باوجودسوال کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ 2010 میں جب سیلابی پانی کے نکاس میں کئی ماہ نہیں لگے تھے توحالیہ سیلاب کے قریباً چارماہ بعد تک سندھ کے متاثرہ علاقوں سے ابھی تک پانی کیوں نہیں نکالا جاسکا۔
سندھ کے متاثرہ علاقوں سے سیلابی پانی کا نکاس نہ ہونے کا سوال کسی اور کے آگے رکھنے سے پہلے ذہن میں آیا کہ جب دریائے سندھ کے دائین کنارے کے سکھر سے سیہون تک کے علاقوں کی زمینی اونچ نیچ اور جغرافیےکا کچھ نہ کچھ علم ہے تو کیوں نہ ان تکنیکی پہلوئوں پر غور کر لیا جائے کہ یہ خاص زمینی اونچ نیچ ہی کہیں پانی کے مذکورہ علاقوں میں جمع ہونے اور نکاس نہ ہونے کا باعث تو نہیں بنی ہوئی۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کے اکثر علاقوں میں دریائوں کی ڈھلوان شمال سے جنوب جبکہ زمین کی ڈھلوان شمال مشرق سے جنوب مغرب کی طرف ہے۔اسی ڈھلوان کے سبب یہاں بارشوں کا پانی ندی نالوں کے ذریعے دریائوں میں گرتا ہے اور اسی ڈھلوان کی وجہ سے یہاں ایک دریا کا پانی دوسرے دریا میں ڈالنے کیلئے رابطہ نہروں کی تعمیر ممکن ہو ئی تھی۔ سندھ میں زمین کی ڈھلوان ملک کے دیگر علاقوںکی نسبت کسی حد تک مختلف ہے۔سندھ میں دریا کے بائیں کنارے سے آگے زمین کی ڈھلوان شمال مشرف سے جنوب مغرب کی طرف ہی ہے مگر دائیں کنارے پر خاص طور سے سکھر تا سیہون زمین ایسا نہیں ہے۔ اس علاقے میں کیرتھر پہاڑی سلسلے سے دریا سندھ کے دائیں کنارے تک زمین کی شکل کشتی کی طرح ہے۔ اس علاقے میں دریا اونچا ہے اور زمین نیچی ہے ۔ اسی وجہ سے کیر تھرپہاڑی سلسلے میں برسنے والی بارشوں کا پانی براہ راست دریا میں نہیں گرتا بلکہ پہلے سیہون کے مقام پر موجود منچھر جھیل میں آتا ہے اور پھر وہاں سے اس وقت دریا میں گرتا ہے جب دریا کا بہائو معمول سے کم ہوتا ہے۔ منچھر ایک ایسی جھیل ہے جو 37500 مربع میل علاقے کے برساتی اور غیر برساتی پانی کے نکاس کا وسیلہ ہے۔ منچھر جھیل میں صرف میدانی علاقوں اور ندی نالوں کا پانی ہی نہیں آتا بلکہ حمل نامی جھیل کا پانی بھی گرتا ہے۔ حمل جھیل میں صرف سندھ ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے علاقوں کے پانی کا نکاس بھی ہوتا ہے۔ سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت انگریزوں نے حمل جھیل کا پانی منچھر جھیل میں گرانے کیلئے مین نارا ویلی ڈرین تعمیر کی تھی۔ جب دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہو تی ہے تو جھیل کا پانی دریا میں نہیں گرتا بلکہ دریا کا فاضل سیلابی پانی جھیل میں آنا شروع ہو جاتا ہے۔ جھیل اور دریا کے پانی کی آمد و اخراج کو کنٹرول کرنے کیلئے گیٹ نصب کیے گئے ہیںجن سے سیلاب کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ منچھر جھیل میں پانی کا نکاس کرنے والے کئی ہزار مربع میل پر مشتمل علاقے میں جب 2010کے سیلاب جیسی تباہی برپا کرنے والی حالیہ بارشیں ہوئیں اس وقت دریا میں پانی کی سطح انتہائی بلند ہونے کی وجہ سے بارشوں کا پانی منچھر جھیل تک پہنچنے کے بعد دریا میں نہ جا سکا ۔ جس پانی کے سمانے کیلئے تربیلا ْڈیم کا دامن بھی کم پڑ سکتا تھا اسے منچھر جھیل کہا ںتک سنبھالتی لہٰذا اس پانی نے آبادیوں اور کھیتوں کھلیانوں کی تمیز کیے بغیر ہزاروں مربع میل تک پھیلے ہوئے علاقے کو جھیل بنا دیا۔
اس بات کی تو سمجھ آتی ہے کہ منچھر جھیل میں برساتی اور غیر برساتی پانی کا نکاس کرنے والے علاقوں میںپانی کیوں جمع ہوا اور وہاں کیوں تباہی برپا ہوئی مگر تمام تر دماغ لڑانے کے باوجود یہ سمجھنا محال ہے کہ دریامیں پانی کا بہائو معمول سے انتہائی کم ہونے کے بعد بھی آخر کیوں ابھی تک تباہ حال علاقوں سے پانی کا نکاس نہیں ہو سکا۔بلوچستان سے دریائے سندھ کے دائیں کنارے تک کے علاقوں میں بارشوں کا پانی جمع ہونے سے برپا ہونے والی تباہی کو کسی طرح بھی انسانی غلطی قرار نہیں دیا جاسکتا مگر یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ تباہ حال لوگوں کی زندگیاں معمول پر نہ آنے اور پانی کا نکاس نہ ہونے میں انسانی غفلت اور کوتاہیوں کا عمل دخل نہیں ہے۔ اس سوال کا جواب لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ منچھر جھیل کے ڈرینج ایریا میں سیلابی بارشوں کا پانی کیوں جمع ہو ا، مگر ان علاقوں سے ابھی تک پانی کا نکاس کیوں نہیں ہو سکا اس کا جواب حکومت سندھ پر واجب ہے۔