عوام کا فیصلہ کب؟.. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
حیرانگی تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ پاکستان کے عوام کی پچھلے قریباً تین ماہ سے بجلی کے بلوں میں قیامت خیز اور ظالمانہ اضافے کے بعد حالت کتنی پتلی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بجلی کے بل تو سب نے جمع کرانے ہی ہیں۔ بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے بھی بلوں میں تھونپی گئی بھاری رقوم کو کم کرنے سے معذرت بلکہ بے بسی ظاہر کر دی ہوئی ہے کہ ان کے مطابق یہ اضافہ مرکزی حکومت کے احکامات کے تحت کیا گیا ہے اور وہ اس میں ردوبدل کے ہر گز ہرگز مجاز نہیں ہیں۔معاملہ اگر جون کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ ڈالنے کا ہوتا تو شاید عوام اپنے گھروں کا سامان بیچ کر ادا کردیتےاور حکمرانوں کو کوس کر چپ ہو جاتے لیکن یہاں تو ہر آنے والے بل میں گزرے ہوئے مہینوں کے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بھاری رقوم عوام کی جیبوں سے ڈاکے کی صورت نکالی جارہی ہیں۔دوسری جانب عوام کو جو بظاہر دو سے تین سو یونٹ پر فیول ایڈجسٹمنٹ پر ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا وہ بھی جھوٹا نکلا اور اس کی حقیقت بھی بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے ارباب اختیار ہی بتا رہے ہیں کہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو صرف موخر کیا گیا ہے،یعنی بجلی استعمال کرنے والے تمام صارفین پر تلوار لٹکتی رہے گی اور مہنگے یونٹس کا بل اپنے گھر کی اشیا بیچ کر ادا کرنے کے باوجود حکومت کو جب فنڈز کی کمی ہو گی وہ ان موخر رقوم کو عوام کے بجلی کے بلوں میں ڈال کر ان کو تباہ و برباد کر سکے گی۔
ڈالر کی قیمت مصنوعی طریقے سے کم کرنے کے ماہر وزیر خزانہ بھی اب سیاسی بیانات حتی کہ موڈیز کو بھی دیکھ لینے کی مضحکہ خیز بات کرتے رہے ہیں۔اِدھر عوام ہیں کہ معاشی طور پر تباہ حال ہونے کے باوجود بظاہر خاموش نظر آتے ہیں۔پاکستان جیسے زرعی ملک میں صورتحال ایسی ہے کہ اس وقت تمام ہی سبزیاں جو کہ چند روپے میں فی کلو ملا کرتی تھیں، کا ریٹ اب سبزی فروش سےپوچھیں تو وہ کلو کی بجائے ریٹ پاؤ میں بتاتا ہے۔میرے لیے بڑی حیران کن بات تھی کہ سبزیوں کا ریٹ پاؤ میں پہلے کبھی سنا ہی نہیں تھا، میں نے سبزی فروش سے جب پوچھا کہ ریٹ کلو میں کیوں نہیں بتاتے ہو تو اس کا جواب تھا کہ جناب سبزیاں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ جب کلو میں ریٹ بتاتے ہیں تو گاہک پریشان ہو کر چلا جاتا ہے۔پیاز ڈیڑھ سو سے اوپر اور ٹماٹر تین سو روپے کے قریب اور اسی طرح قریباً تمام ہی سبزیاں چار سو روپے کلو کے قریب مل رہی ہیں۔اس وقت لاہور میں آلو 70 روپے کلو اور بینگن 100 روپے کلو مل رہے ہیں گویا بینگن سب سے سستی سبزی ہے۔گوبھی جیسی سستی ترین سبزی بھی 160 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔کوکنگ آئل،گھی،گوشت اور دالوں وغیرہ کی آسمان تک پہنچی قیمتیں تو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے بہت دور پہنچ چکی ہیں۔اب عوام کھائیں تو کیا کھائیں اور جائیں تو کہاں جائیں۔
کیا ڈالر کی قیمت مصنوعی طور پر کم کرنے سے عوام کو کسی قسم کا ریلیف ملے گا یہ وہ بنیادی سوال ہے جو عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کے مضمرات اور ملکی معیشت پر شدید نقصانات تو ماضی کی طرح مستقبل قریب میں نظر آئیں گے، جب ڈالر پر مصنوعی کنٹرول کو ختم کرنا پڑے گا اور پھر ڈالر گولی کی طرح اوپر جا کر ڈار کی بچھائی بارودی معاشی سرنگوں کو پھلانگتا ہوا ملکی معیشت کو دھڑام سے زمین بوس کر دے گا۔پاکستان کے عوام ملک میں لگے اس تماشے کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ جھیل بھی رہے ہیں جس میں اپوزیشن کے جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ کو روکنے کیلئے 41 کروڑ روپے وفاقی کابینہ نے وفاقی حکومت بلکہ وزارت داخلہ کو جاری کئے ہیں۔ پاکستان کے وسائل کو پھر سے بے دردی سے استعمال کرنا شروع کر دیا گیا ہے اور میری تو سپریم کورٹ سے اپیل ہے کہ قومی خزانے سے 41 کروڑ دھرنا روکنے کا نام پر جو فنڈز وفاقی کابینہ سے وزارت داخلہ سےمنظور کروائے ہیں ان پر فوری طور پر نوٹس لے کہ امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری حکومتی اداروں کی ہوتی ہے جس کی وہ تنخواہ سرکار سے لیتے ہیں اور
41کروڑ منظور کرنے کا مقصد صرف اور صرف عوام کے پیسے کا کچھ مخصوص لوگوں کی جیبوں میں جانے کے علاؤہ کوئی اور مقصد نہیں۔ یعنی کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی شدید خواہش میں عوام کی زندگیاں سہل کرنے کی بجائے ان کے پیسوں سے ہی کروڑوں اربوں ان پر جبر کیلئے استعمال کئے جانے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ ریاست پاکستان کے مالک اس کے باشندے (شہری)ہیں ناکہ مٹھی بھر وہ گروہ جو مسند پر بٹھائے جا چکے ہیں اور ان کا اوڑھنا بچھونا ریاست پاکستان ہر گز نہیں اور ان کی آل اولاد اور کاروبار و سرمایہ بیرون ملک ہے۔قائدؒ کے پاکستان میں عجب تماشہ ہر دور میں لگایا گیا کہ اول تو عوام کے مینڈیٹ پر ہمیشہ ڈاکہ ڈالا گیا اور اگر عوام کسی بھی حکمران کے خلاف کوئی احتجاج کرنا چاہتی ہے تو اسے بدترین ریاست جبر و ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔نوے کی دہائی میں بھی موجودہ شریف برادران کی حکومت تھی اور لاہور ہی شہر تھا جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو پر لانگ مارچ کی پاداش میں شریف برادران کی پولیس نے لاٹھیوں سے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھالیکن کمال خاتون تھی وہ بھی کہ تمام تر ریاستی جبر کا سامنا کرنے کے باوجود بھی گھر نہیں بیٹھی تھی۔ نوے کی دہائی میں لاہور میں سینیٹر گلزار کے گھر جہاں محترمہ بینظیر بھٹو ٹھہرا کرتی تھیں، پر اس وقت کی نواز شریف حکومت کی وحشیانہ کارروائیوں کا تو میں خود بھی عینی شاہد ہوں،لیکن آج 2022 میں بھی اپنے سیاسی و حکومتی مفادات کیلئے حکومتی ذرائع و فنڈز کو ماضی کی طرح بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔شب و روز تماشہ لگا ہے اور ریاست کا بنیادی تصور مسخ ہو چکا اور زبان و قلم پر بدترین تالہ بندی کا سامنا ہے اس وقت اہل زبان و قلم کو،لیکن سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب کرنے کے بعد کیا حکومت زیادہ عرصہ چل سکتی ہے؟
نیب قوانین میں اپنے حق بلکہ ملکی دولت لوٹنے کو ریلیف ملنے کے بعد ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کا ڈرخوف ختم ہوچکا اور غالباً پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا کہ الیکشن کمیشن کو ضمنی انتخابات کیلئے مانگے گئے 60کروڑ نہیں دیئے گئے لیکن لانگ مارچ سے نبٹنے کیلئے41کروڑ کی خطیر رقم کابینہ کی مہر (تاکہ کل کو کسی ایک سیاسی بازی گر پر اس رقم کا الزام نہ لگے)لگا کر وزارت داخلہ کے حوالے کر دیئے گئے۔سوال پھر وہی ہے جو سالہاسال سے کرتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ یہ مالی اور مفادات کا کھلواڑکب تک چلے گا اور کیا ایسا کرنے سے یہ حکومت جو نمائندہ و اکثریتی ہرگز نہیں ہے، کب تک اقتدار میں رہ پائے گی؟اس سوال کو جواب تو عوام سے بھی پوچھنا بنتا ہے کہ وہ اپنے حقوق تیاگ کر اپنا بدترین استحصال کب تک اور سہ سکیں گے کہ موجودہ وفاقی حکومت عام انتخابات تو دور کی بات ضمنی انتخابات سے بھاگ رہی ہے۔ وفاقی حکومت کو تو اپوزیشن کی جماعت کے خلاف جھوٹی کارروائیوں سے فرصت ہی نہیں۔اپنے اپنے مفادات کی مطیع وفاقی اتحادی حکومت تو صرف اور صرف اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں اور عوام کے سلگتے مسائل ان کے مسائل ہرگز نہیں ہیں۔