ColumnQadir Khan

جنگ بندی کی بساط، امن کی تلاش یا نئی چال ؟

 

قادر خان یوسف زئی
یہ مارچ 2025ء ہے، وہ مارچ جس کی ہوائوں میں صرف موسم کی تبدیلی ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست کے بدلتے تیور بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ یورپ کی سرحدوں پر تین سال سے جاری جنگ نے انسانیت کے کتنے گھر اجاڑ دئیے، کتنے خواب پامال کیے اور کتنی زندگیاں خاکستر کیں، اس کا حساب تو شاید تاریخ کبھی نہ کر پائے۔ مگر انہی تباہیوں کے بیچ اب امن کی ایک ہلکی سی امید جنم لے رہی ہے۔ امریکہ نے تیس روزہ جنگ بندی کی تجویز رکھی ہے جس پر ماسکو اور کیف کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ لیکن یہاں سوال صرف جنگ بندی کا نہیں، بلکہ اُس امن کا ہے جو بندوقوں کے خاموش ہونے کے بعد شروع ہوگا۔
ولادی میر پوتن نے اِس امریکی منصوبے کو اصولاً تو قبول کیا لیکن ساتھ ہی اپنی کچھ ایسی شرائط رکھ دیں جنہوں نے سفارتی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی۔ یوکرین پہلے ہی واشنگٹن کی یہ تجویز مان چکا ہے، شاید اس لیے بھی کہ صدر زیلنسکی کو معلوم ہے کہ جنگ کی قیمت اب یوکرینی عوام کی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ کیف سے لے کر خارکیو تک بے شمار گھرانے ایسے ہیں جنہوں نے اس جنگ میں اپنے پیاروں کو کھویا ہے، ان کی آنکھیں اب امن کی منتظر ہیں۔ مگر سوال وہی ہے کہ کیا یہ 30دن کی عارضی جنگ بندی مستقل امن کا ذریعہ بن سکے گی یا تاریخ ایک بار پھر سفارتی بے یقینی کے دھندلکوں میں گم ہو جائے گی؟
امریکہ اور روس کی سفارتی تاریخ کا ایک مشکل سبق یہ ہے کہ ہر مذاکراتی میز پر دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات لے کر بیٹھتے ہیں۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ سفارتی میدان میں اپنی ’ غیر روایتی‘ حکمت عملی کے لیے معروف ہیں، اور اب ان کا نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف ماسکو کی میز پر بیٹھا روسی حکام کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ جنگ بندی اور مستقل امن دو الگ معاملات ہیں، جنہیں مرحلہ وار ہی طے کیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس پوتن کہتے ہیں کہ جنگ بندی اور دیرپا امن ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں، لہٰذا الگ الگ مذاکرات بے معنی ہیں۔
روس کا سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ یوکرین شاید 30دنوں کو جنگی تیاریوں کے لیے استعمال کرے گا۔ روس یہ واضح ضمانت چاہتا ہے کہ اس وقفے کو جنگ کی تیاری کے بجائے امن کی تیاری کے لیے استعمال کیا جائے۔ دو مراحل کے بجائے ایک ہی مرحلے میں معاملے کو منطقی انجام پر پہنچایا جائے، دوسری جانب یوکرین اور امریکہ کو یہ خدشہ ہے کہ روس اس جنگ بندی کو محض وقت گزارنے کے حربے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے اور یہی خدشہ روس کو بھی ہے ، تاہم ماسکو کی جانب سے یوکرینی فوج کے روسی علاقے کُرسک سے انخلاء کی شرط اس وقت مذاکرات کی میز پر ایک نازک اور مشکل مرحلہ بن چکی ہے۔
امریکہ کو اب سفارتی حکمت عملی واضح کرتے ہوئے محتاط توازن قائم کرنا ہوگا۔ صدر ٹرمپ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ معاشی پابندیاں روس کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں، مگر وہ اس کا استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ یہ موقف یقیناً مثبت ہے، لیکن روس اس امریکی نرمی کو کمزوری نہ سمجھ لے، یہی اصل امتحان ہے۔ روس ہمیشہ سے ایسے معاملات میں اپنے اہداف واضح رکھتا ہے، جبکہ امریکی سفارت کاری اکثر داخلی تضادات کا شکار رہی ہے۔ اگر امریکہ واقعی اس بحران کا خاتمہ چاہتا ہے تو اُسے روس کو واضح طور پر باور کرانا ہوگا کہ امن کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں۔
تاریخ کا سبق ہے کہ جب بھی بڑے تنازعات حل ہوئے ہیں تو غیرجانبداری کے اصول پر حل ہوئے ہیں۔ یورپ کی مثال سامنے ہے کہ سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا جیسے ممالک کو عالمی طاقتوں نے واضح ضمانتوں کے ساتھ غیرجانبدار ریاستوں کا درجہ دیا، جس سے امن ممکن ہوا۔ یوکرین بھی ایسی ہی کسی ضمانت کی تلاش میں ہے۔ لیکن یہاں معاملہ پیچیدہ اس لیے ہے کہ روس یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ 2008ء میں نیٹو کی جانب سے یوکرین کی رکنیت کے وعدے نے ہی روس کو اس حد تک خوفزدہ کیا تھا کہ وہ جارحیت پر مجبور ہوا۔ لہٰذا مستقبل کی غیرجانبداری کا معاہدہ واضح اور مکمل ہونا ضروری ہے، ورنہ یہ جنگ بندی بھی پچھلی تمام جنگ بندیوں کی طرح ناکام رہے گی۔
آج اگر امریکہ اور یورپ کی عالمی طاقتیں یوکرین کو غیرجانبدار بنانے کے لیے عملی ضمانتیں فراہم کر دیں اور چین جیسے عالمی کھلاڑی کو اس میں شامل کر لیں تو یہ جنگ بندی دیرپا امن میں بدل سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے سفارتی سنجیدگی ضروری ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یورپی یونین ابھی تک واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یورپ کو سمجھنا ہوگا کہ اس بحران کی قیمت صرف یوکرین ہی نہیں بلکہ پورا یورپ ادا کر رہا ہے۔ لاکھوں مہاجرین یورپی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور معیشتوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں یورپ کی خاموشی اس تنازع کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
یہاں اس انسانی المیے کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جو روزانہ یوکرین کے شہروں میں وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ بچوں کے ویران چہرے، بزرگوں کی بے بسی اور عورتوں کے آنسو اس جنگ کے اصل متاثرین ہیں۔ روس اور امریکہ کے لیے یہ صرف ایک سیاسی کھیل ہو سکتا ہے لیکن عام لوگوں کے لیے یہ زندگی اور موت کی جنگ ہے۔ جنگ بندی کے مذاکرات میں عام انسانوں کے دکھوں اور تکالیف کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔
حالات اس مقام پر ہیں کہ اگر آج امریکہ، روس اور یورپ نے مل کر سنجیدہ رویہ اختیار نہ کیا تو یہ 30دن کا وقفہ بھی بے نتیجہ ثابت ہوگا۔ صدر ٹرمپ اور صدر پوتن کے درمیان براہ راست ملاقات ہی شاید وہ آخری راستہ ہو جو اس جنگ بندی کو امن کی شکل دے سکے۔ لیکن اس ملاقات کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ دونوں فریق اسے پروپیگنڈے کے بجاءے حقیقی سفارتی رابطے کے طور پر لیں۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں عالمی طاقتوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی ہوگی۔ یہ جنگ بندی صرف امن نہیں بلکہ آنے والے وقت میں عالمی استحکام کی ضمانت بھی بن سکتی ہے۔ اگر امریکہ، روس اور یورپ نے اس موقع کو ضائع کر دیا تو شاید تاریخ انہیں کبھی معاف نہ کرے۔ یہ فیصلہ اب عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ سفارتی بصیرت سے کام لیتے ہیں یا اپنی انا اور مفادات کے تابع ہو کر انسانیت کو مزید دکھوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ فیصلہ تاریخ کی عدالت پر چھوڑتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button