Columnمحمد مبشر انوار

انجام گلستان

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
سمت کا تعین نہ ہو، درست نہ ہو تو سفر بالعموم دائروں میں دکھائی دیتا ہے، جس مبارک گھڑی پاکستان معرض وجود میں آیا، اس میں کسی آسیب کا ہونا ممکن تو نہیں البتہ بعد ازاں ایسے آسیب مسلط کئے گئے ہیں کہ حرکت تو انتہائی تیز تر ہوتی ہے لیکن سفر انتہائی آہستہ ہے، مسافر ایک ہی جگہ پر کھڑا نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے ریاست پاکستان کی صورتحال بھی اسی طرح کی دکھائی دیتی ہے کہ ہمارے کوتاہ قد سیاسی قائدین، سیاسی بصیرت سے ناآشنا نظر آتے ہیں کہ دنیا اپنی ترجیحات کا تعین کرکے نہ صرف یکسو ہو کر،ان پر عمل پیرا ہیں بلکہ مستقبل کی پیش بندیاں کرتے ہوئے ،ترقی کا سفر طے کرتے نظر آتے ہیں ۔فروعی معاملات تو خیر دیگر ممالک کے لئے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے کجا ذاتی مفادات کی بات کی جائے کہ ان ممالک میں ریاستی مفادات ہی سب سے اہم ترین ہوتے ہیں اور ان کی تمام تر کوششیں و کاوشیں ریاستی مفادات کے تحفظ پر دکھائی دیتی ہیں۔ وہاں بنائے جانے والے قوانین ،عوام الناس کو مد نظر رکھتے ہوئے،عوامی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے،مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے،ممکنہ مشکلات کا قبل از وقت جائزہ لیتے ہوئے بنائے جاتے ہیں تا کہ قبل از وقت پیش بندی کرتے ہوئے ملک وقوم کو مشکلات سے بچایا جاسکے۔ کسی کے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کبھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ آئین و قانون کو موم کی ناک بنایا گیا ہو اور کسی فرد واحد کے مفادات کو آج تحفظ دیا جائے اور مستقبل میں پھر حالات کو سامنے رکھتے ہوئے،انہی قوانین کو پھر سے تبدیل کیا جائے۔گویا آئین و قوانین نہ ہوئے،کھیل تماشہ ہو گیا کہ جب صاحب اقتدار کی منشاء ہوئی اسے حسب ضرورت تبدیل کر لیاجبکہ دیگر ممالک میں اس کے برعکس جب آئین و قوانین بن جائیں تو پھر پوری قوم کو ان کے تابع ہوناپڑتا ہے نہ کہ بوقت ضرورت آءین و قوانین کو پھر سے تبدیل کر دیا جائے۔اس عمل میں قومیں ،قوانین بنا کر ،ان پر عمل پیرا دکھائی دیتی ہیں اور قوم کے منتخب نمائندے سعی مسلسل میں جتے نظر نہیں آتے بلکہ دیگر معاملات کو زیر بحث لاتے ہوئے ملک وقوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے میدان عمل میں دکھائی دیتے ہیں۔
کہنے کو ریاست پاکستان کا ایک آئین ہے،جس کے تابع پوری ریاست کو ہونا چاہئے لیکن آج کل ہر چھ ماہ بعدہی ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آئین و قانون میں کوئی ایسی کمی بہرطور رہ گئی ہے جس سے ہوس اقتدار میں مبتلا لوگوں کی خواہش حکمرانی کی تکمیل ممکن نہیں لہذا نئے سرے سے ترامیم کا شورو غوغا سنائی دیتا ہے۔ہرچند کہیں کہ اس سے حکمرانوں کی مراد ’’ ملک وقوم ‘‘ کی بہتری ہو گی لیکن نہیں ہے کہ عمل چیخ چیخ کر پکارتا دکھائی دیتا ہے کہ کسی طرح میرے اقتدار کو طول چاہئے،مجھے اقتدار کی راہدریوں سے دور مت دھکیلو،میرا اقتدار میری سانس ہے، مجھ سے میری سانس مت چھینو۔ ایسی سیاسی بصیرت پر تو اب تف بھیجنے کو بھی دل نہیں کرتا کہ ان سیاستدانوں کا کردار اس بری طرح سے عیاں ہو چکا ہے، ان کی ’’ اہلیت‘‘ کی داستانیںدر و دیوار پر ایسے کنداں ہو چکی ہیں کہ انہیں دیکھ کر ابکائیاں آتی ہیں ،طاقت کے مرکز ومحور پر حیرت ہوتی ہے کہ کن آزمودہ کاروں کو قوم کا نجات دہندہ سمجھ کر ملک و قوم پر مسلط کر رکھا ہے۔ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنے کے پس پردہ جو افواہیں زیر گردش ہیں،اب تو وہ طشت ازبام ہو چکی کہ دنیا کو دکھائی دے رہا ہے کہ ان حکمرانوں کو اقتدار پر مسلط کرنے میں کس کے کتنے مفادات وابستہ ہیںاور یہ حکمران ان کے حصول میں کس طرح بروئے کار آنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔حکمرانوں کی بہرحال تمام تر کوششیں فی الوقت رائیگاں جاتی نظر آ رہی ہیں کہ طاقتوروں کے ترجمانوں کی زبان اس کارکردگی کو عیاں کر رہی ہے،جس کا مظاہرہ حکمرانوں نے کیا ہے، اتنی دردسری کے باوجود،حکمران اتحادیوں کو آئینی ترامیم پر قائل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور نوازشریف شرمندگی و سبکی و تلملاہٹ میں اسلام آباد سے واپس لاہور پہنچ چکے ہیں۔ تاہم اس شکست کے ذمہ دار اپنے چھوٹے بھائی اور موجودہ وزیراعظم کو اچھی خاصی ڈانٹ ڈپٹ کرکے واپسی نے یقینا ان کا موڈ خراب کر رکھا ہے اور مقتدرہ کی طرف سے جو عزت افزائی ہو چکی یا جس کی مزید توقع ہے،وہ الگ ہے۔ اس سارے کھیل میں مولانا فضل الرحمن کے کردار کی ستائش نہ کرنا ناانصافی ہوگی اور یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ’’ سٹیٹس کو‘‘ کے خلاف یوں ڈٹ کر کھڑے دکھائی دے رہے ہیں وگرنہ اس سے پہلے ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ مولانا بہرطور کسی نہ کسی صورت سٹیٹس کو کے ساتھ ہی نظر آئے ہیں۔ اس کے پس پردہ حقائق کیا ہو سکتے ہیں،بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ اس فیصلہ کن وقت میں اگر مولانا سٹیٹس کو کے ساتھ کھڑے ہوتے تو مبینہ طور پر احتمال تھا کہ ان کی رہی سہی عوامی سیاست دفن ہو جاتی جبکہ دوسری رائے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مولانا کو اس قدر توانا ساتھ پہلے میسر ہی نہیں رہا کہ جس کے بل بوتے پر وہ سٹیٹس کو کے خلاف یوں ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے۔ بالفرض اگر موخرالذکر رائے کو درست تسلیم کیا جائے تو مولانا کا سیاسی موقف کہ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے،تسلیم کئے بنا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا تاہم ماضی میں جو کچھ ہوا، وہ اس اصولی موقف کے برعکس اپنی سیاست بچانے کی غرض ہی کہلا سکتی ہے۔
دوسری طرف ملکی معیشت کی جو تباہ کن صورتحال ہے،اس میں ہر گزرتا دن پاکستانی عوام کے لئے شدید ترین مشکلات کا باعث بن رہا ہے اور عوام کی داد رسی کہیں سے ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ وزیراعلی پنجاب کی جانب سے بجلی کے بلوں میں جو کمی کا اعلان ہوا تھا،اسے آئی ایم ایف نے مسترد کردیا ہے کہ ملکی معیشت اس سہولت کی متحمل نہیں ہو سکتی لہذا ایسی کوئی بھی داد رسی نہیں کی جا سکتی۔ درحقیقت ملکی معیشت کا تمام تر کنٹرول اس وقت آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں جا چکا ہے اور بعینہ آئینی ترامیم ،ملکی بجٹ بھی آئی ایم ایف کی جانب سے ہی بنایا اور تھوپا گیا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بنائے ہوئے بجٹ پر بھی حکومت کماحقہ عمل درآمد کروانے سے قاصر نہیں آتی ہے۔ اس کی وجہ انتہائی سادہ سی ہے کہ ایک طرف عوام میں اتنے بھاری بھرکم ٹیکس کو ادا کرنے کی سکت نہیں رہی تو دوسری طرف یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام اپنی ملکیت پر بھی حکومت کو کرایہ کی مد میں ٹیکس ادا کرے، آئی ایم ایف کو اس ظلم پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی اس ناانصافی پر آئی ایم ایف حکومت کو روکنے کے لئے تیار نظر آتی ہے جبکہ حکومتی اللوں تللوں پر سوائے زبانی جمع خرچ کے آئی ایم ایف کسی حد تک حکومت کی ہلا شیری کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ملکی صنعت تباہ حال ہو چکی ہے اور نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع معدوم ہوتے جا رہے ہیں کہ ملکی صنعتکار اپنا سرمایہ ہی دوسرے ممالک میں منتقل کر رہے ہیں، ان کے لئے ممکن ہی نہیں رہا کہ اس قدر کساد بازاری میں عالمی منڈی کا مقابلہ کر سکیںلہذا ان کے لئے کہیں بہتر ہے کہ وہ اپنا سرمایہ ایسی جگہ منتقل کریں کہ جہاں نہ صرف ان کا سرمایہ محفوظ ہو بلکہ ان کی پیداوار عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کے قابل ہو،ان کی پیداوار عالمی منڈی میں قابل خرید ہو۔ فارم 47کی مسلط کردہ حکومت سے ایسی ہی کارکردگی کی توقع تھی کہ وہ رہے سہے ملکی مفادات کو یوں بکھیر کر رکھ دے گی تاہم نہ صرف اپنے مقدمات میں سہولت فراہم کرنے والوں اور انتخابات میں دھونس و دھاندلی کے ساتھ کامیاب کروانے والوں پر نوازشات کرنے میں ہر حد سے گزرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔ تف ہے ایسی سوچ پر کہ جو جمہوری کھیل میں مروجہ اصول و ضوابط کو پس پشت ڈالتے ہوئے، فقط اپنی ذات اور اپنے خاندان کی تا قیامت حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے سرگرداں نظر آ رہے ہیں۔ ’’ ناگزیریت‘‘ کی یہی سوچ 1997میں بھی میاں نوازشریف کی جانب سے دکھائی گئی تھی کہ جب ایک طرف عدالت عظمیٰ پر حملہ کیا گیا تھا اور دوسری طرف ہمیشہ کے لئے اپنی حکمرانی مسلط کرنے کے لئے آئین میں ترمیم لانے کی مجوزہ کوشش کرتے ہوئے،پارلیمانی نظام کو لپیٹنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی،جو بہرطور جنرل مشرف نے ناکام بنا دی تھی، تب سے کسی بھی سیاسی جماعت کو دو تہائی اکثریت پارلیمان میں نصیب نہیں ہوئی ۔
اس پس منظر میں ذہن بارہا 2003کے ان امریکی نقشوں کی جانب جاتا ہے کہ جس میں پاکستان کے سالمیت کو ٹوٹا ہوا دکھایا گیا ہے، خاکم بدہن، تاہم وفاق پاکستان کی موجودہ اکائیوں میں ابھرتی ہوئی احساس محرومی ( محتاط ترین الفاظ) ناانصافی کو دیکھتا ہوں، تو کانپ جاتا ہوں کہ حکمرانوں کو اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں بلکہ ان کے اقدامات جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 2004 میں پلان 2025کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور پاکستانی اداروں سے یہ قوی امید تھی کہ جس طرح انہوں نے عالمی طاقت کو افغانستان میں ناکوں چنے چبوائے تھے، بعینہ وہ اس پلان2025کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیں گے اور عالمی طاقت کو اس کے مذموم ارادوں میں دھول چٹا دیں گے، تاہم آج اس خیال/امید کو تقویت دینے والی سوچ متزلزل دکھائی دے رہی ہے۔ نفسا نفسی کے جو مظاہر آج دیکھنے کو مل رہے ہیں، جس طرح چھینا جھپٹی ہو رہی ہے، انفرادی سوچ جس طرح بروئے کار نظر آ رہی ہے، باڑ جس طرح کھیت کو کھانے کے درپے ہے، ایسے میں انجام گلستان کیا ہو سکتا ہے، ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں تاہم اللہ کے قوانین اٹل اور ساری مخلوق کے لئے یکساں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button