افغانستان دہشتگردی کیلئے اپنی سرزمین کے استعمال کے شواہد جھٹلا نہیں سکتا
سانحہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی شروع کردہ جنگ کے بداثرات وطن عزیز پر بھی مرتب ہوئے اور یہاں دہشت گردی کے ہولناک عفریت نے سر اُٹھایا، جو 80ہزار بے گناہ انسانوں کی زندگیاں نگل گیا، جن میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران اور جوان بھی شامل تھے۔ روز ہی ملک کے کسی گوشے میں بم دھماکے اور خودکُش حملے ہوتے تھے، جن میں درجنوں شہری لقمۂ اجل بن جاتے تھے، شہری شدید خوف و ہراس میں مبتلا تھے، صبح کو گھر سے نکلنے والے کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ شام کو زندہ سلامت گھر لوٹ بھی سکے گا یا نہیں۔ دسمبر 2014 میں دشمنوں نے معصوم اطفال کو نشانہ بناکر ہر دردمند دل کو اشک بار کردیا، سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں 150طلباء و اساتذہ شہید ہوئے۔ اس کے بعد دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پہلے آپریشن ضرب عضب اور پھر ردُالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کو اُن کی کمین گاہوں میں گھس کر مارا اور گرفتار کیا گیا، متعدد دہشت گرد اپنے منطقی انجام کو پہنچے، ملک بھر سے ان کا صفایا ہوگیا، جو بچ رہے، اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہوئی۔ عوام نے سُکون کا سانس لیا۔ 7، 8سال امن و امان کی صورت حال بہتر رہی، لیکن امریکی و اتحادی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے وطن عزیز میں دہشت گردی کے عفریت نے پھر سے سر اُٹھانا شروع کیا۔ تب سے لے کر آج تک سیکیورٹی فورسز کو تسلسل کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے، کبھی چیک پوسٹوں پر حملے ہوتے ہیں، کبھی قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی اہم تنصیبات پر حملے کیے جاتے ہیں، کئی جوان و افسران ان مذموم کارروائیوں میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ وطن عزیز میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے افغانستان کی سرزمین کا تسلسل سے استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان بارہا افغانستان کی طالبان عبوری حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرواچکا اور افغان حکومت کو اپنی سرزمین دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے مطالبات کرچکا ہے، لیکن پڑوسی ملک اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینے پر آمادہ ہی نہیں، بارہا اس سے مطالبات کیے جاچکے، لیکن وہ تو اپنی رَٹ پر قائم ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے ناقابلِ تردید شواہد بھی سامنے آچکے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین کے استعمال سے متعلق ناقابل تردید شواہد منظرعام پر آگئے، گزشتہ کئی عرصے سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے سرحد پار سے ملتے آرہے ہیں۔ ریاست پاکستان کی جانب سے بارہا افغان عبوری حکومت کو ان ناقابل تردید شواہد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ افغان عبوری حکومت کی جانب سے خارجی دہشت گردوں کی پشت پناہی سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں، کئی بار ریاست پاکستان کی جانب سے فراہم کیے گئے ناقابلِ تردید شواہد کے باوجود افغان عبوری حکومت خوارج کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ افغان آرمی چیف فصیح الدین نے 28اگست کو بیان دیا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے لیکن 27اگست کو تیراہ میں آپریشن کے دوران پاک فوج نے افغانستان سے دراندازی کی کوشش کرنے والا افغان شہری خارجی عبداللہ ولد نثار کو گرفتار کرلیا جب کہ خارجی عبداللہ ولد نثار کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد افغانستان کے دہشت گردوں کی پشت پناہی کے ناقابل تردید شواہد سامنے آچکے ہیں۔ خارجی عبداللہ کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق ضلح ننگرہار ولایت کے ضلع لال پورہ سے ہے اور اس نے دہشت گردی کی ٹریننگ اپنے آبائی شہر ننگرہار میں حاصل کی، دہشت گردی کی تربیت ملنے کے بعد پاکستان کے مختلف حصوں میں حملہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ خارجی عبداللہ نے انکشاف کیا کہ پاکستان پر حملے کرنے والے 34افراد میں آئی ای ڈی کے ماہر بھی شامل تھے، پاکستان پر حملے کے لیے ان کے پاس وافر مقدار میں دھماکا خیز مواد موجود تھا۔ ستارہ بانڈہ کے مقام پر حملے کے نتیجے میں 10لوگ زخمی، 15ہلاک اور باقی کمانڈر بھاگ گئے، ساتھیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑا۔ ان ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ افغان سرزمین گزشتہ کئی عرصے سے پاکستان میں بدامنی پھیلانے، دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ ان ٹھوس شواہد کی بنیاد پر افغان عبوری حکومت کے کھوکھلے دعوے ایک بار پھر دنیا کے سامنے آشکار ہوچکے ہیں۔ افغان عبوری حکومت کو پاکستان کے خلاف اپنی دوغلے پن والی حکمت عملی کو بدلنا ہوگا اور فتنہ الخوارج کی اپنی سر زمین پر سرکوبی کرنی ہوگی۔خارجی کا یہ اعتراف افغانستان کے کردار کو کھل کر عیاں کردیتا ہے۔ افغان عبوری حکومت ان ناقابل تردید شواہد کو کسی طور جھٹلا نہیں سکتی۔ پاکستان نے ہر بار افغانستان کی مدد کی، وہاں امن و امان کے قیام کے لیے عظیم قربانیاں دیں۔ سوویت یونین جب افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا تو لاکھوں افغان باشندوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دی، اُن کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے، اُن کو تمام شعبہ جات میں بھرپور مواقع فراہم کیے، 44سال تک اُن کی میزبانی کرتا رہا، افغان شہریوں کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھیں، کاروبار کیے، جائیدادیں بنائیں، مہمان اپنے وطن واپس جانے کا نام ہی نہیں لیتے تھے، حالانکہ ان کی میزبانی کرتے کرتے وطن عزیز کے وسائل میں ہولناک کمی آتی چلی گئی اور یہ مہمان اُن پر بدترین بوجھ بننے لگے۔ اس لیے گزشتہ سال غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی باعزت اُن کے ملکوں کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے تحت لاکھوں غیر ملکی شہری اپنے ملکوں کو واپس بھیجے جاچکے ہیں۔ غرض پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے لیے محسن کا کردار نبھایا، اُس کی ہر ممکن مدد کی، تعاون کیا، اُسے آسانیاں بہم پہنچائیں، لیکن افغانستان کی جانب سے ہر مرتبہ محسن کشی کی جاتی رہی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ افغان سرزمین کا پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال اس کا واضح ثبوت ہے جب کہ اس مقصد کے لیے دہشت گردوں کو افغان عبوری حکومت کی مکمل سرپرستی بھی حاصل ہے۔ افغانستان کو اچھا پڑوسی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے یہ ناپسندیدہ مشقوں کو بند کردینا چاہیے۔ وہ شرپسندوں کو کسی طور اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے نہ دے۔ اپنے عوام اور ملک کی ترقی پر توجہ دے، اس قسم کی تخریبی سرگرمیوں سے دُوری اختیار کرے۔
تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت
پاکستان قدرت کا عظیم تحفہ ہے۔ یہ تاقیامت قائم و دائم رہے گا۔ دشمن ابتدا سے ہی اسے دُنیا کے نقشے سے مٹانے کی مذموم کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، ہر طرح کی ریشہ دوانیاں کرچکے ہیں، لیکن ہمیشہ ان کے ہاتھ ناکامی اور نامُرادی ہی آئی ہے۔ دیکھا جائے تو وطن عزیز اپنے حسین نظاروں، وادیوں، آبشاروں، تاریخی اور حیرت انگیز مقامات کے باعث دُنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارض پاک کو بے پناہ وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے، اگر ان وسائل کو درست خطوط پر بروئے کار لایا جاءے تو ملک و قوم کو درپیش تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں، عوام خوش حالی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں، ملک پر موجود تمام تر قرضوں سے نجات مل سکتی ہے، جہاں پاکستان کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں، وہیں ان کے اندر عظیم خزینے مدفن ہیں۔ بے پناہ قیمتی اور نایاب معدنیات ہماری سرزمینوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ تیل اور گیس کے خاصے ذخائر ہماری سرزمین میں پوشیدہ ہیں، جن کی تلاش کا عمل جاری رہتا ہے۔ ملک کے طول و عرض سے آئے روز اس حوالے سے ذخائر کی دریافت کی اطلاعات سامنے آتی ہیں۔ گزشتہ روز سندھ کے ضلع سانگھڑ میں تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ تیل و گیس کا ذخیرہ او جی ڈی سی ایل نے دریافت کیا، سنجھورو بلاک سمبار فارمیشن میں کنویں کی کھدائی فروری میں شروع ہوئی۔ بلوچ ٹو نامی کنویں سے یومیہ 388بیرل خام تیل نکلنے لگا، کنویں سے یومیہ6.8 ملین اسٹینڈرڈ کیوبک فٹ گیس حاصل ہورہی ہے۔ تیل اور گیس کے اس نئے ذخیرے کی دریافت موجودہ حالات میں خوش گوار ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہے۔ اس سے ملکی ضروریات کے لیے وافر گیس اور تیل حاصل ہوسکیں گے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ملک و قوم کے لیے آئے روز اچھی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں، اس ذخیرے کی دریافت انہی میں سے ایک قرار دی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پچھلے برسوں کے دوران وطن عزیز میں گیس ایسی نعمت کا انتہائی بے دردی سے بے دریغ استعمال دیکھنے میں آیا، جس کی وجہ سے پچھلے چند سال سے ملک میں گیس کی قلت کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کی ناقدری کسی طور مناسب امر نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ گیس کے استعمال میں شہری ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔ اس کے بے دردی سے استعمال کی روش ترک کریں اور اسے احتیاط کے ساتھ ضرورت کے مطابق استعمال کرنے کی عادت اپنائیں۔