ColumnZameer Afaqi

مراعات ! ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

پوری دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والا سکندر دنیا سے خالی ہاتھ جانے سے پہلے اپنے اُستاد ارسطو سے پوچھتا ہے ’’بابا ریاستیں کب تباہ ہوتی ہیں‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’جب بادشاہ عوام کی انتڑیاں دسترخوان پر سجانے لگیں‘‘ ارسطو کا محولہ بالا جملہ پاکستان کے حالات کا مکمل نقشہ کھنچتے ہوئے بتاتا ہے کہ پاکستانی حکمران اشرافیہ تو انتڑیوں سے بھی آگے جاکر ہماری زندہ لاشوں تک کو نوچ رہے ہیں اور پھر بھی ان کے شکم پر نہیں ہو رہے۔ میں جب بھی ان بڑی توندوالوں کو لش پش سرکاری خزانے (عوام کے پیسوں) سے خریدی گئی مہنگی گاڑیوں اور مہنگے برانڈز کے سوٹ بوٹ پہنے بڑی شان بے نیازی سے گردنیں اکڑائے دیکھتا ہوں تو مجھے اندازہ لگانے میں ذرا دیر نہیں لگتی کہ ان کی قیمت یہ ظالم حکمران نت نئے ٹیکس لگا کر عوام کے پیٹ سے نکالتے ہیں ۔یہ اس ملک کے حکمران ہیں جہاں کی ایک بڑی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ، جہاں لوگ دوا اور روٹی کیلئے گردے تک بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ہماری اشرافیہ کے بارے میںدنیا بھی یہ کہتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو ٹیکس ادا نہیں کرتے مگر ہمارے دیئے گئے پیسوں سے عیاشیاں کرتے ہیں دنیا نے، ’’اکڑ خانوں‘‘ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کیلئے کئی امدادی پروگرام بند کر دیے ہیں کہ کچھ تو خدا کا خوف کرو عوام کی امانت میں خیانت بند کر دو اگر ایسا نہ کیا تو ہم بھی پھر یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ان شاہ خرچوں کو مزید امدد دینی بھی چاہیے یا نہیں۔
عوامی سطح پر سینٹ میں کئے اس مطالبے کو عوامی زبان بنا دینا چاہیے جس میں سینیٹ نے مالیاتی (ضمنی) بل 2023 کے ذریعے ٹیکس اور ڈیوٹیز سے متعلق بعض قوانین میں ترمیم کیلئے بل کی سفارشات کو متفقہ طور پر منظور کرلیا اور ایوان میں ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ججوں، جرنیلوں اور قانون سازوں کیلئے مراعات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ایک ریٹائرڈ جج کو ماہانہ پنشن کی مد میں قریباً 10 لاکھ روپے ملتے ہیں، اس کے علاوہ مفت بجلی کے 2 ہزار یونٹ، 3 سو لیٹر مفت پٹرول اور 3 ہزار روپے کی مفت فون کالز ملتی ہیں حالانکہ اس لگژری طرز زندگی کی کوئی گنجائش نہیں ۔پروٹوکول کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے سینیٹر نے کہا کہ 60 بلٹ پروف لگڑری گاڑیاں صرف کابینہ کے ارکان کے استعمال میں ہیں، جبکہ دیگر بڑے افراد کے پاس ایسی گاڑیاں ہیں جو ایک ٹرک جتنا تیل استعمال کرتی ہیں۔
کچھ عرصہ پیشتر دنیا بھر میں غربت کے خاتمے اور کمی کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے آکسفیم نے مطالبہ کیا تھا کہ کئی دہائیوں سے بڑھتی ہوئی غیر مساوی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے ایک عالمی سمجھوتہ کیا جائے۔آکسفیم نے ورلڈ اکنامک فورم پر جمع ہونے والے عالمی رہنماؤں کو تجاویز دی تھیں کہ عالمی سطح پر کارپوریشنز پر ٹیکس کی شرح، عوام کی مفت فلاحی سروسز میں زیادہ سرمایہ کاری کی جائے اور بے روز گار لوگوں، بیماروں کیلئے زیادہ تحفط فراہم کیا جائے۔عالمی رہنما نظام میں اصلاحات کریں تاکہ یہ صرف عالمی اشرافیہ کیلئے نہیں بلکہ تمام انسانیت کے مفادات کیلئے کام کرے۔ کیا پاکستان کی اشرافیہ کو بھی کوئی یہ احساس دلا سکتا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم معاشروں میں ٹوٹ پھوٹ کا باعث بننے کے ساتھ معاشروں کی تباہی بھی لاتی ہے ہمارا معاشرہ اس کی زندہ مثال ہے حالات اشارہ کر رہے ہیں
کہ اشرافیہ نے اگر حالات کی سنگینی کا احساس نہ کیا تو ممکن ہے ’’نرم ہاتھوں‘‘ کی تلاش جلد شروع ہو جائے جن کے دستر خوان تو انواع اقسام کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں لیکن عوام کو مشورہ ’’ایک روٹی‘‘ کھانے کا دیتے ہیں۔ اس لیے انتڑیوں پر دستر خوان سجانے کی روش کو ختم کر دینے میں ہی بھلائی نظر آتی ہے اگر کوئی سمجھے تو!۔ ہمارے ملک میں تو غربت کا نام و نشان دور دور تک نہیں ہونا چاہے اس لیے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان دنیابھر میں دودھ ،آم ،پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر ہے جبکہ پاکستان ان تمام لوازمات، نعمتوں، وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے جن کی بدولت یہ صرف خطے ہی نہیں بلکہ یورپین یونین کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔
کیا یہ ظلم عظیم نہیںکہ کروڑوں پاکستانیوں کے معصوم اور کم سن بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی دستیاب نہیں ہے، جن کے بچے شدید گرمی اور سردی میں تن ڈھا نپنے کیلئے دو گز کپڑوں کیلئے بھی ترستے ہیں۔ جو چھت اور چار دیواری سے بھی محروم ہیں۔ جو علاج معالجے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جن کے بچے حصولِ تعلیم کے خواب دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں،پاکستان کی لے پالک اشرافیہ اور حاکموں کی کرتوتوں کی وجہ سے ایک ایسے ملک میں جہاں قدرت کی فیاضی پر دنیا بھر کی مملکتیں انگشت بدنداں ہیں وہاں اس ملک کی اکثریتی آبادی کو اپنے ہی ملک کی پیداوار میسر نہیں، یہاں ارض وطنِ میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جن کی حالت کیڑے مکوڑوں سے بھی بد ترہے۔ تنگ وتاریک گلیوں ،کچی بستیوں اور جھونپڑیوں کے یہ مکین، کہنے سننے اور دیکھنے کی حد تک تو پاکستانی اور انسان ہیں، لیکن کھلی اور واضح حقیقت تو یہی ہے کہ ان کا پاکستان کے وسائل اور پاکستان کی دولت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ان کا نصیب ہے؟ اگر یہ ان کا نصیب نہیں ہے تو پھر یہ اپنا نصیب بدلتے کیوں نہیں۔کسی نے کہا تھا کہ غریب پیدا ہونا کوئی جرم نہیں،مگر غریب مرنا جرم ہے۔؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button