ColumnImtiaz Aasi

جلسوں پر اعتراض کیوں؟ ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

حکومتی حلقوں کی طرف سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلا ف آئے روز نئے مقدمات کے اندراج سے اس تاثر کو رد نہیں کیا جا سکتا حکومت خان کی مقبولیت سے پریشان ہی نہیں بلکہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے ورنہ اسے تحریک انصاف کے سربراہ کے خلاف نئے نئے بہانوں سے مقدمات در ج کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔عمران خان ضد کے پکے ہیں جیسے مقدمات بنتے ہیں وہ عدالت سے رجوع کرکے ضمانت کرا لیتے ہیں۔ اسلام آباد کی ایک عدالت نے تو ضمانت لیتے وقت پولیس سے سوال کیا کوئی دفعہ رہ تو نہیں گئی جو نہ لگائی گئی ہوجس کے بعد پولیس کے متعلقہ افسران کی نظریں شرم سے جھک جانی چاہئیں۔معزز جج صاحب کے ان ریمارکس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں عدالت نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ عمران خان کے خلاف بعض غیر ضروری دفعات لگائی گئی ہیں۔ درحقیقت حکومت کسی طریقہ سے سابق وزیراعظم کو جیل بھیجنے کیلئے کوشاں ہے لیکن قانون کے سامنے بے بس ہے۔
اطلاعات ہیں کہ ایف آئی اے کو تحریک انصاف کے خلاف مواد جمع کرنے پر لگا دیا گیا ہے تاکہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر جان چھڑائی جا سکے۔بعض حلقوں کے نزدیک عمران خان کا جلسوں کے انعقاد کا مقصدحکومت پر دبائو بڑھا کر اپنے خلاف مقدمات سے گلو خلاصی کرانا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا جلسوں سے حکومت اور عدالتیں دبائو میں آکر ملزمان کوچھوڑ دیتی ہیں اگر ایسا ہوتا تو قتل کے مقدمات کی سماعت کے موقع پر مدعی اور ملزم فریق کے حامی جتھوں کی شکل میں عدالتوں کے باہر جمع ہوتے ہیں تو عدالتیں لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر ملزمان کو چھوڑ دیتی ہیں؟مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز سیلابی علاقوں کے دورہ کرکے فوٹو سیشن کے بعد واپس لوٹ آتی ہیں اس کے برعکس عمران خان کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں اورانہوں نے ٹیلی تھون کرکے کچھ رقم جمع کی ہے، تو اسے کسی طریقہ کار کے مطابق تقسیم کیا جائے گا نہ کہ وہ پوری رقم کسی ایک صوبے کے متاثرین میں تقسیم کریں گے۔چاروں صوبوں میں جہاں کہیں کوئی این جی او یا کوئی حکومتی عہدے دار جاتا ہے تو جماعت اسلامی واحد مذہبی جماعت ہے جس کے کارکنان سیلاب زدگان کی امداد کیلئے پہلے سے موجود ہوتے ہیں ۔بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں خیموں کی تنصیب ہو یا متاثرہ لوگوں کو خوراک کی ضرورت ہو جماعت اسلامی کے لوگ تمام جماعتوں پر سبقت لے گئے ہیں ۔ تعجب ہے عوام ہر مشکل کی گھڑی میں اپنی امانتیں جماعت اسلامی کے حوالے کرنے میں ذرا تامل نہیںکرتے لیکن عام انتخابات میں ووٹ ملک وقوم کو لوٹنے والوں کوڈال آتے ہیںجواس سے بڑی بدقسمتی اس قوم کی اور کیا ہوں گی ۔
سیاسی حلقوں کا عمران خان پر یہ اعتراض ہے وہ سیلابی علاقوں میں متاثرین کے پاس نہیں گئے حالانکہ وہ جنوبی پنجاب میں روجھان اور سندھ میں سکھر کے علاقوں کا دورہ کرچکے ہیں جہاں انہوں نے متاثرین میں کھانا تقسیم کیا۔ہمارا ملک معاشی اورسیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے ایسے میں حکومت سیلاب زدگان کیلئے تنہا کچھ نہیں کر سکتی بلکہ مشکل کی اس گھڑی میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے متاثرین کی امداد کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔جہاں تک حکومت کی طرف سے عمران خان کو نااہل قرار دینے کی بات ہے اس کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ نے کرنا ہے نہ کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے کرنا ہے۔موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو عدلیہ جتنی اب آزاد ہے پہلے کبھی نہیں تھی صرف سیاست دانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ملک میں کچھ اس طرح کا ماحول بن چکا ہے کسی جماعت کے حق میں فیصلہ آجائے تو ٹھیک ہے اور خلاف آجائے تو انصاف کا قتل ہو جاتا ہے۔سیاست دانوں کو اس طرح کے خمار کو اپنے ذہنوں سے نکالنا ہواگا۔ایسا ممکن نہیں عدالتیں کسی کے خلاف حقائق سے صرف نظر کرکے کوئی فیصلہ کر یں ۔
انگریزسرکار نے عدالتوں میں اپیل کے فورم ایسے نہیں بنائے تھے بلکہ ان کا مقصد اگر کسی موقع پر کوئی غلطی رہ جائے تو اگلی عدالت اپیل میں اس غلطی کی درستگی کردے لہٰذا ہمیں عدالتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے اسی میں ہم سب کی بقاء ہے۔ اس کے باوجود نواز لیگ کے بعض حاشیہ برداروں کے نزدیک ملک میں انصاف کے مختلف معیارات مقرر ہیں۔ درحقیقت انہیں نواز شریف کی نااہلی ہضم نہیں ہو پا رہی ہے شاید اسی لئے وہ مختلف حیلے بہانوں سے اعلیٰ عدلیہ پر نشتر چلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود ملک پر ڈیفالٹ کے خطرات منڈ لارہے ہیں۔ ملک کو اس وقت بھی بارہ تیرہ بلین ڈالر کی ضرورت ہے ۔قرضے اتارنا تو بعد کی بات ہے موجودہ معاشی حالات میں ہمیں آئی ایم ایف کا ہر مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ عمران خان ملک کو آئی ایف ایم کی غلامی سے نکالنے کی بات کرتا ہے تو اس میں برائی کی کون سی بات ہے۔ہمیں اغیار کی غلامی سے نکل کر آقائے دوجہاںﷺ کی غلامی میں آکر راحت وسکون مل سکتا ہے۔مسلمان قوم کی حیثیت سے ہمیں فرنگیوں کی غلامی سے نکالنے کا عہد کرنا ہوگا ۔کاش ہم پاکستانی اپنی تمام ترجیحات چھوڑ کرحق تعالی اور اس کے آخری رسول ﷺ کی غلامی کاصدق دل سے عہد کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔اگر ہم نے اب بھی سبق نہیں سیکھا تو پھر ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔اگر ہم آج سے بدعنوانی کا راستہ ترک کرکے صراط مستقم کے راستے پر گامزن ہو جائیں تو یہ بات یقینی ہے ہم ایک نہ ایک دن اپنے پاوں پر کھڑے ہو جائیں گے ۔سیاست دان لوٹ مار کی دولت بیرون ملکوں سے واپس لے آئیں تو ہمارا ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ہم شریف خاندان اور زرداری خاندان سے پر زور اپیل کرتے ہیں وہ اپنے مال ودولت سے کچھ حصہ ملک واپس لے آئیں تو ہمارا ملک دیوالیہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button