Ahmad NaveedColumn

جہاں بھی ظلم و تکبر مثال ہوتا ہے .. احمد نوید

احمد نوید

 

فیصل آباد میں خدیجہ نامی طالبہ کے ساتھ بدسلوکی کے واقعے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہم ذہنی طور پر کس قدر بیمار قوم ہیں۔ غرور ، تکبر ، گھمنڈ اور انا کی تسکین کا ایک عجیب عالم تھا، اُس ویڈیو میں ، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ۔ شیخ دانش اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کر کے اس کیس سے بری ہو جائے تو انصاف اوراُس معاشرے کی موت ہوگی، جس کو بے مثال دیکھنے کیلئے قائد کی آنکھیں مٹی کی چادر اوڑھ کر سوگئیں ۔
اس انسانیت سوز واقعے کے بعد آج ذرا مل کر اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی جسارت کرتے ہیں ۔ خوداحتسابی اور اصلاح کے اس عمل میں اس بات کا تعین بھی ضروری ہے کہ کہیں ہم فرعون اور شیطان کی اولاد تو نہیں بن گئے کیونکہ ہم آج اُس معاشرے کے مقیم ہیں جہاں ہم ہر روز دن میں کئی بار کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں مگر ہم مہربانی اور نہایت رحم کرنے کی صفت سے محروم ہیں ۔
ہم دن میں کئی بار سلام کر کے ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دیتے ہیں مگر عملی طور پر ہم اس صفت سے بھی کوسوں دور ہیں اور آج ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ نہیں ۔ ہمیں ناپ تول پورا رکھنے کیلیے کہا گیا ، ہم وہاں بھی خدا کے مخالف چلے۔ ہمیں ملاوٹ سے روکا گیا، ہم وہاں بھی اپنی لالچ کے آگے بند نہ باندھ سکے ۔ ہمیں جھوٹ سے منع کیا گیا ، آج ہم بہت اہتمام سے جھوٹ بولنے کی خوبی سے مالا مال ہیں ۔ ہمیں دوسروں کا احساس کرنے کی تلقین کی گئی ، ہم بے حسی اور ظلم میں اپنی مثال آپ بن گئے ۔ ہمیں ہمارے پیغمبر اسلام کی جانب سے مکمل ضابطہ حیات دیا گیا ہے مگرآج کہاں ہے وہ ضابطہ حیات ؟ آ ج کہاں ہے وہ حسن اخلاق ، عاجزی ، انکساری نیک نیتی ، حساسیت ، رحم دلی ، شرمساری ، ہمدردی ، برداشت ، حوصلہ ، ایمان داری ، ذمہ داری ، سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا ۔
فیصل آباد میں خدیجہ کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ معاشرے کی مرگ ہے ۔ آج صفِ ماتم بچھنا چاہیے ، اس بات پر کہ ہم اسلام کے ضابطہ حیات کی تمام خوبیوں سے تہی دامن ہو گئے ۔ آج ہمارے معاشرے کے اوصاف میں کیسے کیسے نگینے جڑے ہیں۔ مبارک ہو سب کو !
یہ خود سری ، یہ بدتمیزی ، یہ بدتہذیبی ، یہ جہالت ، یہ سنگ دلی ، یہ تکبر ، یہ غرور ، یہ خود پسندی ، یہ کم علمی ، یہ بد تر بیتی ، بیمار معاشرے اور ذہنی مفلوج قوم کے سینے پر بد اخلاقی ، گندگی اور گھٹیا خباثتوں کا ہر تمغہ جڑا ہے ۔
فیصل آباد کے اس افسوناک واقعہ کا ایک نہایت غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ خدیجہ یا اس کے گھر والوں سے کہاں ، کب اور کیوں غلطی ہوئی کہ وہ اتنے گرے ہوئے اور چھوٹے لوگوں کو پہچان نہ سکے ۔ اس واقعے سے پہلے بھی اور اس واقعہ کے بعد بھی والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش کے معاملات کو صرف گھر کی چار دیواری تک محدود نہ رکھیں ۔ اُنہیں چاہیے کہ وہ دیکھیں کہ اُن کے بچوں کی دوستیاں کن سے ہیں ۔ وہ کیسے لوگ ہیں ، اُن کی سوچیں ، نظریات اور عام لوگوں سے اُن کے روئیے کس قسم کے ہیں ۔
یہ بات بہت غور طلب ہے کہ ایک انسان خواہ دوسروں سے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، وہ اگر کسی ریسٹورنٹ میں ویٹر کے ساتھ بدسلوکی یا بد تہذیبی سے پیش آتا ہے تو اُس کی اچھائی اور مثبت رویہ مشکوک ہے ۔ ایک باریش داڑھی اور ماتھے پر نماز کے نشان والا شخص اگر اشارہ توڑ کر ندامت یا ملامت محسوس نہیں کرتا تو اُس شخص کے کردار میں منافقت ، کھوٹ اور جھوٹ شامل ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جن سے آپ اپنے آس پاس لوگوں کے کرداروں کی سٹڈی کرکے بُرے لوگوں سے فاصلہ اختیار کر سکتے ہیں ۔
میرے دوست ڈاکٹر ندیم ملک سعودیہ میں اس واقعے پر بہت دکھی تھے ۔ یہ ویڈیو پاکستان یا صرف سعودی عرب کی حد تک تو محدود نہیں رہی ہوگی ۔ تمام دنیا نے اِسے دیکھا ہوگا۔ ڈاکٹر ندیم ملک اکیلے اس پر دکھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ اس نے تمام پاکستانیوں کو رنجیدہ اور شرمندہ کیا ہے ، لیکن کیا ہمیں ایسے واقعات کے تسلسل پر بار بار شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔
ہمارے معاشرے کی اقدار اوپر سے لے کر نیچے تک بکھر چکی ہیں ۔ احساس ، لحاظ ، پاس داری اور حقیقی ہمدردی کا نام و نشان تک نہیں رہا۔ اثرو رسوخ ، بااثر اور صاحب اقتدار شخصیات بھی صرف انہی متاثرہ لوگوں سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہیں ۔ جنہیں میڈیا یا سوشل میڈیا فرنٹ پر لے آتا ہے ۔ دل کی تسکین ، خوف خدا اور خدا کی خوشنودی کیلئے اب کوئی کام نہیں کرتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
جہاں بھی ظلم و تکبر مثال ہوتا ہے
عروج آدم خاکی زوال ہوتا ہے۔
آج ہمارا ملک ظلم و تکبر کی بدترین مثال بنا ہوا ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں، کھلے عام دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔کوئی پنجاب میں داخل ہونے پر کسی کی ٹانگیں توڑنے کی بات کرتا ہے تو کوئی وفاقی دارالحکومت میں اپنے زور کا دعوے دار ہے ۔ یہ سب کیا ہے ؟ ہم کس معاشرے کی تصویر بن چکے ہیں ۔ غرور ایک دوسرے پر برتری کے دعوے ۔ سب کی اپنی اپنی انا ہے ۔ کوئی احساس ، ہم آہنگی ، کھلے دل سے ایک دوسرے کو قبول کرنا ، ہمارے یہ مثبت پہلو کہاں جدا ہو گئے ۔ اُدھر بلوچستان میں ، جنوبی پنجاب میں بستیاں ، نگر، گائوں شہر پانی میں ڈوب گئے۔ہمارے سیاستدانوں کے غرور ہی چکنا چور نہیں ہو رہے۔ ہمارے دلوں کی یہ سختیاں ہمیں لے ڈوبے گیں ۔
خدا اگر انہیں توفیق دے اور سورۃ بنی اسرائیل پڑھیں تو شاید شیخ دانش جیسے مغرور ، متکبر اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے انسانوں سمیت ہمارے سیاستدان بھی غرور اور تکبر سے کنارہ کشی اختیار کر لیں ۔ یہاں اس بات کا اضافہ بھی غیر ضروری نہیں کہ ہمارے ملک میں جس شخصیت کے پاس جتنا بڑا پروٹوکول ہے وہ اُس قدر مغرور اور تکبر میں گرا ہوا شخص ہے ۔
اگر عزت ملے تو سر تکبر سے اٹھانا مت
کسی کی خاک کو تم اپنے پیروں سے اُڑانا مت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button