ColumnQadir Khan

محاسبہ خویش ۔۔ قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

 

افراد ہوںی ااقوام، ان کی زندگی کا راز محاسبہ خویش میںمخفی ہوتا ہے ۔ اگرکوئی فرد اپنے محاسبہ سے غافل ہوجائے تو اسے معلوم ہی نہیں ہوسکتا کہ اسے اندر ہی اندر کون سی بلائیں گھن کی طرح کھا رہی ہیں۔ اسی طرح اگر ایک قوم محاسبہ خویش سے انکھیں بند کرلے تو وہ اپنے آپ کو خطرات سے محفوظ ہی نہیں رکھ سکتی۔ ہم نے جیسے صدیوں سے محاسبہ خویشself-criticism سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم پر جب کوئی حادثہ گذرتا ہے،بجائے اس کے کہ ہم سوچیں کہ ہم میں وہ کون سی کمزوری تھی جس کی وجہ سے ہم اس مصیبت کی آماجگاہ بن گئے۔ ہم فریق مخالف کو کوسنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بغداد کی تباہی ، ہماری تاریخ کا بہت بڑا الم انگیز حادثہ ہے لیکن ہم اتنا کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ یہ سب تاتاریوں کی وحشت سامانیوں اورہلاک آفرینیوں کی وجہ سے ہوا۔ ہلاکو بڑا ظالم ، وحشی اور خونخوار تھا، گویا اس تباہی میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا ، جرم سارا ہلاکوؔ کا تھا یا مثلاًجب ہندوستان میں1857کی انقلاب انگیز تباہی ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم سارا زور یہ ثابت کرنے میں صرف کردیتے ہیں کہ انگریز بڑا عیار تھا ، ہندو بڑا غدار تھا ۔
یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہم میں وہ کونسی خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں جن کی وجہ سے دورِ غلامی میں ہم انگریز کی عیاری اور (قدامت پسند) ہندو کی غداری کا شکار ہوگئے۔ یاد رکھیئے ، جس کے اپنے اندر زندہ رہنے کی قوت ہے اسے باہر کا کوئی دشمن مار نہیں سکتا، دشمن تو صرف فریق مخالف کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ گدِھ، جانوروں کی لاش پر امڈ کر آتے ہیں ، زندہ جانور ان کی ، آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے ہیں ، وہ ان پر جھپٹنے کی کبھی جرأت نہیں کرتے ۔ موت خود ہمارے اپنے اندر سے اُبھرتی ہے ، باہر سے تو اس کے صرف محسوس اسباب پیدا ہوتے ہیں،جب تک پرندے کے بازوئوں میں اُڑنے کی قوت ہے ، کوئی شکاری اسے اپنے جال میں نہیں پھنسا سکتا لیکن ۔
جہاں بازو سمٹتے ہیں ،وہیں صیاد ہوتا ہے
فطرت کا اٹل قانون یہ ہے کہ
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ ِ مفاجات
رب العالمین نے اس اصل الاصول کو یوں بیا ن فرمایاکہ ’ یہ حقیقت ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنے اندر تبدیلی نہ پیدا کرلے (سورۃ الرعد 11آیت 13) اور ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ’’تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوتی ہے ۔ ( سورۃ شوری30 آیت 42)۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک شخص نے کہا تھا کہ مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ وہ کسی کو دھوکا نہیں دیتا ، تو آپ ؓ نے فرمایا کہ بات ادھوری نہ چھوڑو ، اسے پورا کرو ۔ پھر آپ ؓ نے فرمایا کہ مسلما ن کی تعریف یہ ہے کہ وہ نہ کسی کو دھوکا دیتا ہے ، نہ کسی سے دھوکا کھاتا ہے۔
بات مذہب اور دین سے نکلتی ہے تو پھر وطن پر آکر رکتی ہے۔ سرزمین پاکستان کا قیام جن خطوط پر ہوا ، اب ہر ایک کی اپنی اپنی توجہہ ہے۔ تاہم اس وقت ملک خداداد میں جن حالات کا سامنا ہے اس پر ہم اپنا محاسبہ کریں تو یہی نظر آتا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ہماری منصوبہ بندیاں صفر تھی۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اقتدار
کے لیے سیاسی خانہ جنگیاں اب بھی عروج پر ہیں ، سیاست کا کوئی بھی تصور ہو ، اس وقت ہر ایک اپنے گریبان میں جھانکے تو ہر احوادث پر پوائنٹ سکورنگ کرنا ہم سب کا وتیرہ بن چکا ہے۔ تنقید کے لیے کوئی سرحد نہیں ، بس مخالف ہونا چاہیے۔ حکومت کا ہونا ضروری نہیں بس حزب اختلاف کا ہونا ضروری ہے۔ گڈ گورننس ، بیڈ گورننس کا تصور اور میزانیہ ہی بدل چکا ہے۔ ہماری جنگ ہم سے شروع ہوتی ہے اور ہم پر ہی ختم ہوتی ہے۔
سیلاب کی حشر سامانیاں ہمیں بار بار آلارم دیتی رہیں کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے پیش نظر ماحول میں ناگزیر تبدیلیاں رونما ہوں گی ۔ بارشوں اور موسم کی ترتیب ہی بدل چکی ، لیکن کسی حکومت کی جانب سے طویل المد ت منصوبہ بندی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ آج ہم بارشوں سے نکاسی آب کے نظام کی خرابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں لیکن کبھی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ہماری آبادیاں اس نہج پر باقاعدگی سے بنائی گئیں کہ نکاسی آب کے لیے ریلوں کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔؟ بلاشبہ دنیا میں جہاں بھی تیز اور زیادہ بارش ہوتی ہے ، نکاسی کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ، لیکن اس کے لیے بلدیاتی سطح سے اوپری سطح تک کوئی عملی طور پر منصوبہ بندی نظر آئے تو نشان دہی ضرور کیجئے گا، اسی طرح طغیانی سے تیز بہائو کو روکنے کے کتنے منصوبے عوامی و جمہوری حکومتوں نے بنائے؟۔ یہاں تو یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اربوں کھربوں روپوں سے جو سڑکیں ، پل وغیرہ بنائے گئے وہ ریت کی ڈھیر کی طرح بہہ گئے۔کسی کے ناقص و غیر معیاری کام کو درست طریقے سے جانچا گیا ہی نہیں۔ اگر ہم عوام اپنے اپنے علاقوں میں دیکھنا شروع کردیں تو عیاں ہوجائے گا کہ ہر برس اربوں روپوں سے ترقیاتی کام کے نام پر پیسہ گٹر میں بہا دیا جاتا ہے۔ قوم کو ضرورت ڈیموں کی ہے ۔ لیکن ہم سب ایک دوسروں کوگھن چکر بنانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم جن نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں ، ان میں بیشتر سائیکل سوار تھے آج ان کے نوکروں کی بھی کروڑوں روپوں کی جائیداد ہے۔ اصل محاسبہ خویش یہی ہے کہ ہم منتخب کن کو کرتے ہیں اور وہ جو منتخب ہوجاتے ہیں تو پھر وہ کیا کرتے ہیں یہ بھی ہم اپنے سامنے ، بلکہ اکثر اپنے ہاتھوں سے کرتے نظر آتے ہیں۔اگر قدرتی آفات سے ہم اتنا سبق ہی سیکھ لیں کہ ہم اپنا محاسبہ بھی کریں گے اور ان کا بھی جن کے ہاتھوں میں عنان حکومت تھا اور ہے، تو یقین کیجئے کہ ہم اقوام عالم سے سراٹھا کر کہنے کے قابل ہوسکیں گے کہ دیکھ لو کس طرح
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button