ColumnJabaar Ch

بارودکاڈھیر .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

مسائل بارود کاڈھیر بن چکے ہیں اوربارود کوصرف چنگاری دکھانے کی دیر ہوتی ہے ۔ہم یہ چنگاری بارود کو دکھاچکے ہیں۔مسائل ہر معاشرے میں ہوتے ہیں ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن ان کا حل بھی ہوتا ہے یہاں حل سب کو معلوم ہے لیکن کرنے والوں کوحل نہیں مسائل ہی سوٹ کرتے ہیں ۔ ان کے اقتدارکی روزی روٹی ہی مسائل سے چلتی ہے۔معاشروں میں ثالثی کے فورم موجود ہوں اور لڑنے والوں کا ان پر اعتبار برقرار رہے تو مسائل ساتھ ساتھ حل ہوتے رہتے ہیں ۔ویسے تو ہرجگہ ثالثی کا ایک ہی حتمی فورم یعنی عدلیہ ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ثالثی کے دوفورم ہردورمیں رہے ہیں۔ پاکستان میں عدلیہ کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ دوسرا فورم رہا ہے ۔اس وقت دونوں ہی کارگر ثابت نہیں ہورہے کہ لڑنے والوں کو ان پراعتماد اور اعتبار نہیں رہا۔
دوسرا فورم اسٹیبلشمنٹ کا ہے ۔ اس کی کہانی اور صورتحال بڑی ہی دلچسپ ہے۔جب ایک فریق حکومت میں ہوتا ہے تو سیم پیج سیم پیج کرتا پھرتا ہے۔ اس ایک صفحے کو جوڑنے کے لیے وہ دنیا بھر کی ایلفی جمع کرتاہے۔ ایسی گوند اور گلو تلاش کرتا ہے کہ یہ صفحہ جڑا رہے اور اس صفحے کو جوڑے رکھنے کے لیے اس قدر محنت کرتا ہے کہ اپنا اصل کام بھول جاتا ہے ۔

اسے جنہوں نے منتخب کرکے اقتدارمیں بھیجا ہوتا ہے وہ ان کو بھول جاتاہے۔کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ ایک پیج برقرار رہے ۔ایک طرف یہ کوشش ہوتی ہے کہ صفحہ جڑارہے تو عین اسی وقت اقتدار سے باہربیٹھا شخص اس صفحے کو پھاڑنے کے لیے ہلکان ہورہا ہوتا ہے۔ وہ اس صفحے میں دراڑ ڈالنے کے لیے راتوں کے اندھیروں میں ملاقاتیں کرکے نقب لگانے کی کوششوں میں مصروف رہتاہے۔ وہ اس ایلفی کے توڑ کے لیے کیمیائی فارمولے ایجاد کرتا ہے۔ملاقاتوں سے بات نہ بنے تومیڈیا میں گندڈالنے آجاتا ہے۔عمران خان اقتدار میں تھے تو لگتا تھا کہ یہ ایک پیج اٹوٹ گلو سے انتہائی مضبوطی سے جڑاہواہے۔ عمران خان کے نزدیک اس وقت جنرل باجوہ صاحب ایک جمہوری جرنیل تھے کیونکہ یہ تاثر تھا کہ عمران خان کی جان اسٹیبلشمنٹ کے طوطے میں قید ہے ۔ وہی اس کے لیے قانونی سازی کرواتے تھے۔جس جگہ بھی بندے پورے کرنے کی ضرورت ہوتی تو فون گھومنے شروع ہوجاتے تھے ۔
اس وقت اقتدار سے باہر بیٹھے نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے جیالے اس صفحے کو پھاڑنے کے لیے ملاقاتیں شروع کرچکے تھے۔ نون لیگ کی قیادت کے اندر بھی خلائی مخلوق کی روح دوبارہ زندہ ہوگئی اور وہ حساب مانگنے پر اتر آئے۔ آصف زرداری اپنے فارمولے پیش کرنے لگے۔یہ لوگ کامیاب ہوئے اور جو مضبوط گلو سے جڑاہوا صفحہ تھا وہ اچانک پھٹ گیا۔

عمران خان اقتدار سے باہر نکلے توانہوں نے سب سے پہلے انہی نیوٹرلز کوتختہ مشق بنانا شروع کردیااور اب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ انہیں فوج سے لڑانے کی سازش کی جارہی ہے۔عمران خان کو پاکستان کے بہت سے عوام کی حمایت حاصل ہے ۔وہ جلسے کرتے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن گفتگو میں تضاد ایسا کہ خدا کی پناہ۔ان کا امریکی سازش کا بیانیہ ڈونلڈ لو سے شروع ہوا اور اب امریکی سفیر ڈونلڈبلوم کی خوشامد تک آگیا ہے یہاں عوام کو امریکی غلامی کے پیچھے لگایا ہواہے اور امریکہ میں اپنی امیج بلڈنگ کے لیے ساٹھ لاکھ روپے ماہانہ پر لابنگ فرم ہائر کررکھی ہے۔

عجیب دوعملی ہے کہ اپنے دورحکومت میں پاکستان کی کل عمرکے برابر قرضہ لینے کے بعد اقتدار سے باہر آئے ہیں تو کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو خودداربنائیں گے۔کہتے ہیں پاکستان کا قرضہ ہم سب مل کر اتاریں گے ۔ٹھیک ہے بھئی اب کیوں ؟ پہلے جب اقتدار ملاتھا تو قرضوں کے پہاڑ کھڑے کرنے کی بجائے ان کواتارنے لگ جاتے نا۔کس نے روکا تھا؟عجب دوعملی ہے کہ امریکی سفیر کے لیے ریڈکارپٹ بچھا رہے ہیں ۔ ان سے اپنی حکومت کے لیے امدادمانگ رہے

ہیں۔ اپنے وزیراعلیٰ کے ذریعے دوسرے کمرے میں جاکر امریکی سفیر سے ویڈیوکال پر بات کر رہے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ میں آپ کو امریکی غلامی سے نجات دلاوں گا؟ شہباز گل کے ڈرائیور کی اہلیہ گرفتار ہوئی ۔انتہائی شرمناک کام ہوا۔ جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اپنے دور اقتدار میں ساہیوال میں بچوں کے سامنے ماں باپ پر گولیاں برسانے والوں کو معاف کرکے ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ڈرائیورکی چھوٹی بچی کو ماں سے جداکرنا ظلم ہے۔ خان صاحب یہ چھوٹی بچی تو چند گھنٹوں کے لیے جدا ہوئی وہ بھی نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن ساہیوال میں تو ان بچوں کے ماں باپ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے تھے آپ ان یتیموںکے سرپرہاتھ رکھنے کے روادارنہ ہوئے۔

تضادات کا شکار صرف عمران خان نہیں ہیں۔ دوسری طرف بھی یہی حال ہے۔آج خواجہ آصف فوج کے دفاع میں ہیں اور نون لیگی قیادت کو عمران خان کی فوج پر تنقید بری لگ رہی ہے لیکن آپ کا ماضی کیا ہے؟پس جب تک یہ سیاستدان کسی ایک جگہ کھڑے نہیں ہوں گے یہ مسائل کا پہاڑبنتارہے گا۔فوج اگر نیوٹرل ہوگئی ہے تو خدارااپنی روٹیاں سینکنے کے چکر میں اس کو دوبارہ سیاست میں مت گھسیٹو۔ اس کے خلاف زبان درازی سے بازآجائو ان کا کردار دیکھ لو۔دوبارہ سیاست میں مداخلت کریں تو بھلے تنقید کرلینا لیکن اس وقت نہیں۔ بالکل نہیں۔ اس وقت اس ملک کو تقسیم کی نہیں اتحاد کی ضرورت ہے۔یہ ملک بچے گا تو سیاست بچے گی۔ اس وقت ملک کا مسئلہ مہنگائی ہے۔اسکی نیچے جاتی معیشت ہے ۔اس معیشت کو سانس لینے دو۔غریب کو مہنگائی سے نکالنے کے لیے کچھ کرسکتے ہوتو وہ کرو۔عمران خان صاحب آپ کی دوتہائی پاکستان پر حکومت ہے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا آپ کی بھی ذمہ داری ہے۔ صرف وفاقی حکومت کو الزام دے کر آپ جان نہیں چھڑاسکتے۔ایک سال رہ گیا ہے ۔اس کو سکون سے گزارلیں ۔آپ کی قسمت میں دوبارہ اقتدار لکھا ہوا تو ضرور ملے گالیکن ملک کانقصان نہ کیجئے۔پلیز۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button