Ali HassanColumn

درد دل سے محروم معاشرہ .. علی حسن

علی حسن

 

رانا عتیق الرحمان کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی۔ انہوں نے تنگ دستی، بے روز گاری اور ذہنی دبائو کی وجہ سے گلے میں پھندا لگا کر خود کشی کر لی۔ موت کو خود گلے لگانے سے قبل انہوں نے نہ جانے دل پر کونسا پتھر رکھ کر سفاکی سے اپنی دو بیٹیوں کو ذبح بھی کیا۔ ایک بیٹی کی عمر گیارہ برس اور دوسری کی سترہ برس بتائی گئی ہے۔ کیا ان کی عمریں قتل ہونے جیسی تھیں؟رانا کی بیوی پہلے ہی کبھی انتقال کر چکی تھی۔ وہ فیصل آباد کے محلہ محمود آباد میں کرایہ کے مکان میں رہائش رکھتے تھے ۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے جو تحریر چھوڑی ہے اس کے مطابق ان کے ذمے گھر کے کرایہ کی مد میں ایک لاکھ 46 ہزار روپے واجب الادا تھے۔ مالک مکان کا تقاضا ذہنی دبائو کا سبب بن گیا جس نے تین افراد کی جان لے لی۔ رانا نے اپنی تحریر میں لکھا ’’ میں رانا عتیق الرحمن نے اپنی بیٹیوں کو چھری سے ذبح کر دیا ہے اور محمد عثمان کاایک لاکھ 46 ہزار روپے کرایہ دیا ہے۔ انہوں نے بہت تنگ کیا ہوا ہے، میں اس مکان میں 15 سال سے کرائے پر رہ رہا ہوں بیوی کے انتقال کے بعد نوکری نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان تھا ۔ اپنے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اس لیے ہمارے جنازے ایدھی ویلفیئر کو دیئے جائیں اور پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے اور اجتماعی قبر بنائی جائے اور گھر کا سارا سامان ایدھی ویلفیئر کو دیا جائے ۔ یہ الفاظ ایسی بے بسی میں تحریر کئے گئے جس کا ا ب کوئی کسی طرح بھی ازالہ نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیے

رانا عتیق الرحمان فیصل آباد میں رہائش کے باوجود بے روز گار تھا۔ ایدھی پر اعتماد کا عالم اور اپنی اور دو بیٹیوں کی ایک ہی قبر میں تدفین کی ہدایت، اس بات کی عکاسی ہے کہ انہیں احساس تھا کہ تین قبروں کو تیار کرنے کا گورکن خرچہ لے گا، گورکن بھی تو مہنگائی کی وجہ سے قبر کھودنے کے پیسوں میں اضافہ کر چکے ہیںتو کیوں اہل محلہ کو زیر بار کیا جائے۔ وہ اہل محلہ جنہوں نے زندگی میں نہیں پوچھا تو رانا اپنی موت کے بعد ان کا احسان ہی نہیں لینا چاہتے تھے۔ اپنا بچا کھچا سامان بھی ایدھی کے حوالے کرنے کی وصیت۔ ایدھی پر اعتماد کیا ڈپٹی کمشنر دفتر پر اعتماد نہیں کیا۔ یہ اعتماد بحال کرانے کی شدید ضرورت ہے۔
فیصل آباد صنعتی شہر ہے اور اپنے پیداواری سامان کے پیش نظر کسی جغرافیہ کا محتاج یا پابند نہیں۔ یہاں ایک شخص کو روز گار نہیں ملا۔ فیصل آباد میں دولت مند افراد کی کمی بھی نہیں ہے۔ ہر گلی محلہ اور نکڑ پر پیسے والے لوگ موجود ہیں۔ پیسے والوں نے اسی شہر سے کما کر اپنے محلات تعمیر کرائے ہیں لیکن اسی شہر میں غریبوں کی بستیاں بھی موجود ہیں جہاں وہ لوگ رہائش رکھتے ہیں جو بڑے لوگوں کے گھروں اور اداروں میں کم پیسوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ ملازمین کو کم سے کم محنتانہ ادا کرنا پورے ملک میں ہمارا شیوہ بن گیا ہے۔ ہمارا احساس ہمیں ندامت پر مجبور ہی نہیں کرتا۔ اکثر خبریں پڑھنے میں آتی ہیں کہ مالکن نے گھریلو ملازم بچوں پر تشدد اس قدر کیا کہ وہ ہلاک ہو گئے۔ گھروں میں لوگ بھوک اور ذرائع آمدن نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو ایسے لوگوں کے گھروں میں بھی کام کرنے کے لیے دو وقت کی روٹی کے بدلے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ پتھر دل سفاک لوگ دو وقت کی روٹی بھی اپنی بچی کھچی دن بھر کی محنت کے بعد دیا کرتے ہیں۔ افراد کی بات کرنا تواس لیے فضول ہے کہ دولت کی وجہ یا خوش حالی کے سبب آنکھوں کی روشنی دھندلا گئی ہے۔

دولت مند لوگ ان بستیوں کی طرف جانا تو درکنار نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے، جہاں ان کے خدمت گار بے بسی کے عالم میں رہائش رکھتے ہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں کہاں ہیں، بلدیاتی ادارے کہاں ہیں، بیت المال کہاں ہیں، زکوۃ کا سرکاری ادارہ کہاں ہے۔ یہ سارے ادارے بیٹھیے بیٹھے ماہانہ خاطر خواہ معاوضہ پر ملازم ہیں، کیوں نہیں حرکت میں آجاتے۔

یہ سرکاری محکمہ کیوں نہیں ایدھی، چھیپا، سیلانی جیسا نام پیدا کرسکے جہاں ضرورت مند آنکھ بند کر کے پہنچ جاتے ہیں اور اپنی ضرورت پا لیتے ہیںیا ریسکیو 1122 جیسی برق رفتاری کیوں نہیں پیدا کرسکے۔ کہاں گیا ڈپٹی کمشنر کا دفتر جسے اپنی حدود میں پتہ ہلنے کا تو علم ہو جاتا ہے لیکن بھوک سے بلکنے والوں کی آہ و بکا کا علم نہیں ہوپاتا ۔ پھر جب وہ آئی سی ایس کی تربیت پا کر قحط بنگال کے قضبے تملوک میں رضاکارانہ طور پر ایس ڈی او مقرر ہوتا ہے تو بھوک سے سسک سسک کر مرنے والوں میں چاول کے سرکاری گودام لٹوا دیتا ہے جو سرکار نے جاپانیوں کے حملے کے خیال میں ذخیرہ کئے ہوئے تھے ۔ اس پر اس کو کولہو میں پلوایا جا سکتا تھا کہ جاپانیوں کا ایجنٹ ہے یا کانگرس کے ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا تخریب کار۔ مگر اس نے خلق خدا کو بے موت مرتے دیکھا تو اس نتیجے سے بے پرواہ ہو کر بوریاں خالی کرادیں ۔ یہ ذکر احمد بشیر نے قدرت اللہ شہاب کا خاکہ لکھتے ہوئے لکھا ہے۔ ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جب اختیار رکھنے والوں سے خلق خدا کو بے موت مرتے دیکھا نہیں گیا اور انہوں نے انسانوں کو بچانے کے لیے کارروائی ڈال دی۔

حکومت کو کوئی ایسا نظام مرتب کرنا چاہیے کہ انتہائی ضرورت کے پیش نظر کوئی ضرورت مند ایک آواز دے اور دوسری آواز سے قبل ہی اس کا مسئلہ حل ہو جائے۔ اگر کوئی شہری اپنی ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہو کر دس پندرہ ہزار روپے طلب کرتا ہے تو انتظامی افسران اس کی فوری داد رسی کر دیں ۔ مسجد کے پیش امام حضرات کی گواہی اور محلہ دار کی سفارش بھی ہو سکتی ہے۔ یہ داد رسی ابتداء میں کسی تحقیقات یا سرکاری لکھت پڑھت سے ہٹ کرہونی چاہیے کیونکہ پہلا مسئلہ انسان کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے، کاغذ کا پیٹ تو کسی بھی وقت بھرا جا سکتا ہے۔ پہلا مسئلہ رانا عتیق الرحمان اور ان کی دو بیٹیوں کی روٹی کا بندوبست کرنا اور ان کے گھر کا کرایہ ادا کرنا تھا۔ کوئی مالک مکان عثمان سے بھی تو پوچھے کہ اپنے کرایہ دار کی تنگ دستی کاہی خیال کر لیا ہوتا تو تین انسانی جانوں کے ضائع ہونے کا ادبار تم پر بھی نہیں گرتا۔ کیا کسی کی دس ہزار روپے سے مدد کرنا کسی محکمہ یا کسی افسر کے لیے ذاتی طور پر بھی مشکل بات ہے۔ خلق خدا کی بہت بڑی تعداد اس ملک میں کرایہ کے مکانات میں رہائش رکھتی ہے۔
ہر ضلع میں بہت کم وسائل والے لوگ جن کے مکانات کے کرائے بیس ہزار روپے سے کم ہوں، اندراج کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہ کرایہ حکومت کیوں نہیں برداشت کر سکتی ہے؟ حکومت کیوں نہیں وظیفہ مقرر کر سکتی ؟کیا حکومت کے خزانے میں مفلوک الحال لوگوں کے لیے پیسہ نہیں ؟ حالانکہ خوش حال لوگوں پر حکومت سب کچھ لٹانے پر آمادہ رہتی ہے۔ یہ امتیاز اور تفریق ہمیں ایسی جگہ لے جارہی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ اس ملک کے وسائل پر امیر و غریب رعایا کا برابر کا حق ہے ۔ امیر پر سب کچھ لٹانے کو حکومت تیار رہتی ہے لیکن غریب سے سب کچھ چھپانا حکومت کی سرشت بن گئی ہے۔ حیران کن یہ بات بھی ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ نے واقعہ کو مختصر سنگل کالم سے زیادہ کی جگہ ہی نہیں دی حالانکہ یہ خبر صفحہ اول پر بڑے انداز میں شائع کی جانی چاہیے تھی۔ بعض اخبارات نے تو خبر کو کسی اہمیت کے قابل ہی نہیں جانا۔ ذرائع ابلاغ نے اپنے قارئین اور سامعین کو سیاست پر مبنی خبریں پڑھنے اور دیکھنے کا افیمچی بنا دیا ہے۔ بات یہ بھی ہے کہ اخلاق تبدیل ہو گئے ہیں، اقدار بگڑ گئی ہیں، قدریں کھو گئی ہیں، معاشرہ نفسا نفسی کا شکار ہو گیا ہے، کسی کو غرض نہیں کہ کون مرا، کیوں مرا، کیسے مرا، بس اگر ذرا سے بھی شناسائی ہے تو انااللہ و انا الیہ راجعون پڑ ھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button