ColumnNasir Naqvi

افواہیں اور گرفتاریاں .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

سیاسی اور معاشی بحران تھمنے میں نہیں آ رہا، پھر بھی ذمہ داران سمیت ہمارے تمام سیاسی رہنما کوئی ایسی مثبت سرگرمی نہیں کر رہے کہ جس سےعام آدمی مایوسی سے نکل کر سکھ کا سانس لے سکے۔ فرنگیوں نے برصغیر پاک و ہند کو بھی یہ گُر سکھا دیا کہ تقسیم اور حکومت کیسے کی جاتی ہے۔ برصغیر کے لوگوں نے برطانوی راج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو چستی کے نام پر چائے اور کامیاب حکومت چلانے کے لیے سب کو ٹکڑیوں میں بانٹنے کا فارمولا دے گئے۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی سے تقسیم ہوئے پھر انٹرنیشنل سازش سے اسلامی جمہوریہ پاکستان دولخت ہو گیا۔ بھائی سے بھائی جدا ہو گیا۔ ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا اور نہ ہی فکر مند ہیں۔ اس وقت یہ تقسیم فارمولا ابھی بھی اس سرزمین پر پل بڑھ رہا ہے۔ کسی جگہ مذہب و مسلک کے حوالے سے، کہیں زبان و بیان اور حقوق کی پامالی کے نام پر، ازلی دشمن بھارت کی آدھی درجن سے زائد ریاستوں میں علیحدگی کا شور و غوغا ہے جبکہ کشمیر اور خالصتان اس کے علاوہ ہیں، اقلیتیں بھی پریشان ہیں کیونکہ مہنگائی ، بے روزگاری اور نان سٹاپ آبادی ہر طرف موت کا رقص کر رہی ہے لیکن ان کی حکومت اس قدر امیر ہے کہ وہ قوم کا مال بے دردی سے اپنے سورمائوں اور سامان حرب و ضرب پر خرچ کر کے ملکی استحکام مضبوط کر رہی ہے حالانکہ ریاست کے حقیقی محافظ اسلحہ بارود اور جدید جنگی سامان کی موجودگی میں مایوسی کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر خودکشی کی جانب مائل ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر فوجی جوان ذہنی اور معاشی بحران میں مبتلا ہو گا تو امریکہ بہادر سے قومی خزانے سے بے تحاشہ خریدا ہوا اسلحہ اور ٹیکنالوجی کس کام کی، اس لیے کہ اسے استعمال کرنے والوں میں بداعتمادی ختم کر کے جب تک پُرعزم نہیں کیا جائے گا کوئی خاطر خواہ کامیابی ممکن نہیں،سیاسی پارٹیوں میں بھی اشتعال انگیز سوچ موجود ہے۔ اقلیتوں پر ظلم و ستم
جاری ہے کشمیری صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقیقی طور پر حق خود ارادیت مانگ رہے ہیں لیکن انہیں بربریت کا نشانہ بنا کر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور دنیا کے ٹھیکیدار اپنے اپنے مفادات میں تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ افواہیں اور گرفتاریاں بھی جاری ہیں بلکہ عوامی اطمینان کے لیے پاکستان کو ڈھال بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا، بظاہر وہاں میڈیا آزاد اور حکومت جمہوری انداز میں مستحکم ہے تاہم حقیقت یہ نہیں ، کنٹرول میڈیا اور کنٹرول جمہوریت اور سب اچھا، ظلم ناانصافی کی موجودگی میں حکومتی دعویٰ ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اپوزیشن اور ماضی کی حکمران جماعت کانگریس اور اس کے لیڈر الزامات لگاتے ہیں ۔ کرپشن، دھونس دھاندلی اور مودی جی کی من مانیوں کے پھر بھی دھن دولت اور بیورو کریسی کے امتزاج نے مودی جی کو وقت کا بادشاہ بنا رکھا ہے ، نہ حقدار کو حق ملتا ہے اور نہ دہشت گردی کا بازار سجانے والے ہندوئوں غنڈوں کو سزا، اس لیے کہ مودی جی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود غریبوں کے دشمن ہیں کیونکہ ان کے اپنے سگے بھائی ابھی تک دیہاڑی داری میں کھا کما رہے ہیں۔ ان کی اتنی ہی خوشی کافی ہے کہ ان کا بھائی بھارت کا نہ صرف وزیراعظم ہے بلکہ عظیم کارنامہ انجام دے رہا ہے۔ بھارت کو ہندوئوں کا دیس بنانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے لہٰذا ہندو انتہا پسند اور ان کی تنظیمیں اپنے من پسند نتائج کے لیے مودی جی کی قیادت میں متحد ہیں بطور وزیراعلیٰ گجرات مسلمانوں کا قتل عام مودی کی نیک نیتی کا بڑا ثبوت ہے۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی فتح کرنے کے بعد پنجاب میں اپنا جھنڈا گاڑ دیا تو مودی جی نے سکھ کا سانس لیا کہ کانگریس سے جان چھوٹ گئی پھر بھی ان کی نہ افواہوں سے جان چھٹی اور نہ ہی مودی سرکار نے گرفتاریوں کا سلسلہ روکا۔
اب سنیے اپنے پاک وطن کی داستان، تضاد بیانی عروج پر ہے تمام سیاست دان اور پارٹیاں ملکی مسائل کا حل صرف اور صرف اپنے اقتدار میں ڈھونڈ رہے ہیں قوم نے اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ یعنی ڈائمنڈ جوبلی مناتے ہوئے حضرت قائداعظم محمد علی جناح، ان کے رفقاء اور اکابرین تحریک جدوجہد آزادی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شاعر مشرق مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کی خدمات اور سوچ کو سراہا، ان کے مزارات پر حاضری دی۔ پھولوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن سابق وزیراعظم دنیا کے عظیم لیڈر خان عمران خان نیازی نے 13اگست کو اپنے کھلاڑیوں، پرستاروں اور نئی نسل کو حقیقی آزادی کے گُر سکھائے، ان کے عقیدت مندوں نے اپنے رہنما کو اس کارنامے پر زبردست داد دی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ واحد لیڈر عمران خان ہے جس نے راز بتایا ورنہ 75سال تو کسی نے کچھ بتایا ہی نہیں لیکن دوسری جانب سے یہ سوال اٹھ گیا ہے کہ 14اگست 1947ء کو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور ہمارے بزرگوں کی قربانی سے حاصل ہونے والا پاکستان کیا ہے؟ پی ٹی آئی یوتھ کہتی ہے کہ جناب وہ تو صرف ایک خطہ زمین ملا تھا ، حقیقی آزادی عمران خان لے کر دے گا۔ 75سال تو ہمارے حکمران مانگے تانگے کا کھاتے رہے، سیاستدان قومی خزانہ لوٹ کراشرافیہ بن گیا،عام
پاکستانی غریب سے غریب تر ہو گیا۔
موجودہ حالات میں عوام مہنگائی، بے روزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے جینے کا حق بھی چھین لیا پھر بھی حکومت اور اپوزیشن ابھی تک سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ ملک بھر میں افواہیں جاری ہیں کہ اہم شخصیات سے نمٹنے کے لیے وفاق اور پنجاب نے اپنی اپنی حکمت عملی بنائی ہے۔ دلچسپ بات ہے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ اور پنجاب کے وزیرداخلہ کرنل (ر) ہاشم ڈوگر کے ہاتھوں میں گرفتاریوں کے حوالے سے فہرستیں موجود ہیں۔ دونوں باآوازِ بلند اس کا تذکرہ بھی کر رہے ہیں۔ دونوں جٹ ہیں اس لیے یہ بھی ثابت کریں گے کہ زیادہ طاقت ور کون ہے؟ بظاہر رانا ثناء اللہ کو وفاق اور سیاسی تجربے میں برتری حاصل ہے۔ پرانے پارلیمنٹرین ہونے کے ساتھ ساتھ دو بار پنجاب کے وزیر قانون بھی رہ چکے ہیں اور جب سے پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ نون میں آئے ہیں ، اِدھر اُدھر کبھی نہیں دیکھا، قائد نواز شریف اور پارٹی صدر شہباز شریف کی قربت بھی نصیب ہے، اس لیے ان کا اعتماد اور للکارا سمجھ میں آتا ہے لیکن ہاشم ڈوگر کو وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور خان اعظم عمران خان کی ہدایات نے ایسا جذبہ عطا کر دیا ہے کہ انہوں نے بڑھک ایسی لگائی کہ مخالفین انہیں اہمیت دینے پر مجبور ہو گئے ہیں ان کا چیلنج ہے کہ پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد کے مسلم لیگی مکین شہر لاہور آنے کی ہمت کر لیں ہم ان کا ’’لام لشکر‘‘ لے کر استقبال کریں گے یعنی نہ صرف ہتھکڑیاں پہنائیں گے بلکہ ضمانت شدہ شخصیات کی ضمانت منسوخ کرا کے انہیں سرکاری مہمان بھی بنائیں گے۔ دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ انہیں خان اعظم نے سانحہ ماڈل ٹائون کو جگانے کی ذمہ داری بھی لگائی ہے اس واقعہ میں شہادتیں بھی ہوئی تھیں، شہید زندہ ہوتے ہیں اس لیے انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑےگا، تاہم اس معرکہ آرائی کے پہلے نذیر چوہان سے تحریک انصاف کے ایم پی اے مدعی شبیر گجر نہ صرف صلح کر چکے ہیں بلکہ ان کی ضمانت بھی ہو چکی ہے۔ شہر لاہور کی سیاسی فضاء اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ آنے والے وقت میں گرفتاری نہیں، گرفتاریاں ہوں گی خواہ پنجاب کے وزیر داخلہ کی حکمت عملی کامیاب ہو کہ وفاق کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی چال چل جائے، کیسی عجیب بات ہے کہ افواہوںاور گرفتاریوں کے حوالے سے پنجاب اور وفاق کے وزرائے داخلہ انتہائی اہمیت حاصل کر چکے ہیں جبکہ ایسامحسوس ہو رہا ہے کہ جیسے سندھ،خیبر پختونخوا اوربلوچستان میں وزیرداخلہ ہیں ہی نہیں،یہی حقیقت ہے کہ ان کا کوئی نام بھی نہیں جانتا ہو گا۔
صدر پاکستان لاہور آئے تو استقبال کرنے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو ایئرپورٹ بھی جانا پڑا، پہلے یہ کام گورنر کرتا تھا لیکن سابق دور کے گورنر عمر سرفراز چیمہ کے نقش قدم پر اب موجودہ گورنر بھی چل رہے ہیں۔ خبریں ہیں کہ چودھری پرویز الہٰی نے وفاق سے تعاون کا پیغام دیا ہے یعنی ایک تیر سے دو شکار، اگر وفاق نے پذیرائی دی تو پھر عمران خان سے دوری خودبخود ہو جائے گی۔ حقیقت میں تو خوش فہمی ہی ثابت ہو گی کیونکہ کابینہ اور حکومت تو پی ٹی آئی کی ہے۔ یہی نہیں، ابھی تو افواہیں خبر بنیں گی اور گرفتاریوں کا ایک میچ شروع ہو گا، اس کا نتیجہ بھی پرویز الہٰی کو ہی بھگتنا پڑے گا اس کا احساس انہیں عمران خان کے جلسہ لاہور سے ہو چکا ہوگا۔ اسے اسلام آباد سے لاہور لانے کے بھی ایک سے زیادہ معاملات تھے جو وزیراعلیٰ کے علاوہ شاید کوئی دوسرا جانتا بھی نہیں ہو گا لیکن میری جمع تفریق کے مطابق گرفتاریاں پنجاب سے ہوں کہ وفاق کے حکم پر، اس کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں ہو سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button