ColumnImtiaz Aasi

بے وقت کی راگنی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

الیکشن کمیشن نے نئے انتخابات کے لیے ابتدائی تیاریاں مکمل کر لی ہیں، بعض حلقوں کے نمبر بدل دیئے ہیں ۔نشستوں کی تعداد میں کمی سے حلقوں کے نمبر بدلنے پڑے ہیں۔تحریک انصاف کی طرف سے جلد انتخابات کا مطالبہ روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے۔جماعت اسلامی انتخابی اصلاحات کے بعد الیکشن کی حامی ہے لیکن پی ڈی ایم کے سربراہ اور آصف زرداری جلد انتخابات کے حامی نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اقتدار کے مزے لے رہی ہے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو کیا پڑی سر چولہے میں دینے کی، ان کی جماعت کے لوگ وزارتوں پر براجمان ہیں۔تحریک انصاف نے تو حکومت کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔

ملک عجیب صورت حال کا شکار ہے۔ایک طرف ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں اور تحریک انصاف ان انتخابات میں بغیر کسی عذر کے حصہ لے رہی ہے تو دوسری طرف عام انتخابات کے لیے اسے چیف الیکشن کمشنر قابل قبول نہیں ۔ضمنی انتخابات سکندر سلطان کی نگرانی میں قابل قبول ہیں تو عام انتخابات میں قبول کیوں نہیں ؟ عمران خان نے سلطان سکندر کی تقرری کو اپنی غلطی قرار دیا ہے مگر آئینی عہدے پر متعین شخص کے خلاف بغیر ٹھوس مواد،اس کا مواخذہ ممکن نہیں۔چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا اختیارسپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہے ۔پی ڈی ایم والوں کو ضد ختم کرنی چاہیے اور جلد انتخابات کے لیے رضامندی ظاہر کرنی چاہیے وقت سے چند ماہ پہلے انتخابات ہونے میں کون سا امر مانع ہے۔ضمنی الیکشن پر جو پیسہ خرچ ہوگا بہترہے عام انتخابات کا جلد انعقاد کرا دیا جائے اور مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف تو شروع دن سے عام انتخابات کے حق میںتھے مگر بعض طالع آزمائوں نے مسلم لیگ نون کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔فاٹا کے انضمام کے بعد وہاں صرف چھ نشستوں پر الیکشن ہوگا۔نشستوں کی یہ کمی آئین کی پندرویں ترمیم کے تناظر میں عمل میں لائی گئی ہے۔فاٹا سے تو پہلے لوگ پیسوں کے زور پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پہنچ جاتے تھے۔جنرل پرویز مشرف نے بی اے تعلیم کی شرط رکھی تو پڑھے لکھے نوجوان ایوان میں آنا شروع ہو گئے ورنہ پہلے تو فاٹا سے پیسوں کے بل بوتے پر کوئی بھی ایوان میں آسکتا تھا۔

بہت پرانی بات ہے ہم ایک دوست ایم این اے آغا عطاء محمد پٹھان مرحوم جو سکھر سے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی تھے، کے ساتھ جا رہے تھے، سامنے سے ایک بڑی پجارو پر پیلے رنگ کی پگڑی والا شخص دکھائی دیااور آغا صاحب کہنے لگے اللہ کی شان یہ آدمی کراچی میں رکشہ چلایا کرتاتھا اب فاٹا سے سینیٹ کا رکن ہے۔ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے اور سیاست دانوں کوملک کی بجائے اقتدار کی فکر ہے۔ ان حالات میں پی ڈی ایم کو حکومت چھوڑ کر انتخابات کی طرف آنا چاہیے کیونکہ جلد انتخابات کا انعقاد نہ کسی کی جیت ہے اور نہ ہاربلکہ ملکی مفاد میں ہے۔ وقتی طورپر حکومت اور الیکشن کمیشن نے عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے، اس کے خلاف توشہ خانہ کا ریفرنس دائر ہو گیا ہے۔بیس یا پچاس فیصد ادائیگی کے بعد چیزیں حاصل کئی گئی ہیں توانہیں فروخت کرنے سے کیاکوئی قانون روک سکتا ہے؟ عمران خان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہت سادہ ہیں وہ غیر ملکی فنڈنگ سے ایون فیلڈ میں فلیٹ اور دبئی میں پلازہ خرید لیتے نہ کوئی شور وغوغا ہوتا اورنہ ہی الیکشن کمیشن کو شوکاز نوٹس دینے کی ضرورت پڑتی

دوسری طرف نواز شریف اپنے مالی معاملات میں بہت سمجھدار ہیں۔ شریف خاندان کے لوگوں نے منی لانڈرنگ کی تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے کسی نے پوچھا تک نہیں۔لوگ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد مایوس ہوجائیں گے لیکن ضمنی الیکشن سے پہلے جلسے کرکے انہوں نے مخالفین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور کامیاب بھی رہے۔اب تو انہوں نے تمام حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں خود کودنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عوام جس کے ساتھ ہوں اسے بھلا کون روک سکتا ہے۔عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کو اپنی غلطی تسلیم کرلیا ہے اور پنجاب کے ضمنی الیکشن میں عمران خان کے بندوں کی کامیابی سے پی ڈی ایم خوف زدہ ہے ۔نون لیگیوں کوپنجاب ہاتھوں سے جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔

حالیہ سیاسی ماحول میں سیاست دانوں نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے انہیں ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبان کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ اقتدار کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے عوام جسے مینڈیٹ دیں اقتدار اسی جماعت کا حق ہوگالہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات کے صاف اور شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے تاکہ غیر جانبدارانہ الیکشن کے نتیجہ میں

وجود میں آنے والی ملک اور قوم کے مسائل سے عہدہ برآ ہو سکے۔سیاسی جماعتیں صدق دل سے انتخابات کے انعقاد کو شفاف بنانا چاہیں تو ہمیں یقین ہے کہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے نتائج تمام جماعتوں کو قبول ہوں گے۔جس طرح پنجاب کے ضمنی الیکشن میں کسی جماعت کی طرف سے مبینہ گڑبڑ کی شکایت نہیں آئی ،اگر عام انتخابات کا انعقاد ایسے ہو جائے تو ملک وقوم کے لیے اس سے بڑی کوئی خوش خبری نہیںہوگی۔الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ میں تحریک انصاف کا فیصلہ کر دیا ہے، اب اسے دوسری جماعتوں کی فنڈنگ کا فیصلہ جلد کرکے اپنی غیر جانب داری ثابت کرنی چاہیے ورنہ عمران خان تو پہلے ہی چیف الیکشن کمشنر پر جابنداری کا الزام لگا چکے ہیں۔اب الیکشن کمیشن کوچاہیے وہ دوسری جماعتوں کی غیر ملکی فنڈنگ کیس کا جلد فیصلہ کردے تو ہو سکتاہے عمران خان سلطان سکندر راجا کے مواخذے کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیںورنہ تحریک انصاف کے پاس چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کے لیے ان کی جانبداری کا الزام کافی ہوگا۔تحریک انصاف ضمنی الیکشن میں حصہ لے کر چیف الیکشن کمشنر کا کیس مضبوط کر رہی ہے اسے ہٹانا ہی مقصود ہے تو ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کرنا چاہیے ورنہ عمران خان کا چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا مطالبہ بے وقت کی راگنی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button