ColumnKashif Bashir Khan

آئین پاکستان میں مرضی کے ٹانکے ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

آج اس بات سے قطع نظر کہ کون سی سیاسی جماعت کیا کر رہی ہے اور کون سا ادارہ کیا کر رہا ہے سوچنے کی ضرورت ہے کہ من حیث القوم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری آنے والی نسل کیا کریں گی۔ہماری اکثریت تو اپنی اپنی زندگیوں کی بیشتر اننگز کھیل چکے ہیں اور جوانی یا زمانہ طالب علمی میں جو خواب ہم نے دیکھے تھے وہ تو بری طرح چکنا چور ہوچکے، اب تو ایسے خواب بھی نہیں آتے جن میں بہتر حالات ہوں بلکہ اب تو ملکی حالات بارے خوفناک خدشات کی وجہ سے خواب بھی ڈراتے ہیں۔

مجھے یاد ہے زمانہ طالب علمی میں جب پروفیسر احمد حسن ہمیں پولیٹیکل سائنس پڑھاتے تھے تو آئین پاکستان پڑھتے ہوئ ایسا لگتا کہ جیسے ہم بڑے ہی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اتنا متوازن آئین پاکستان ملا ہے لیکن جیسے جیسے آئین پاکستان کو پڑھتے گئے احساس ہوا کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ تو حقیقت میں ہو ہی نہیں رہا۔مجھےیاد ہے میں نے ایک دن پروفیسر احمد حسن سے پوچھا تھا کہ آپ ہمیں جو آئین پاکستان بارے پڑھا رہے ہیں وہ تو ریاست میں ہمیں نظر ہی نہیں آتا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ عملی طور پر آئین پاکستان منسوخ ہے لیکن میں تو آپ کو وہ ہی پڑھا رہا ہوں جو آئین پاکستان کی کتاب میں لکھا ہے(یہ آٹھویں ترمیم آنے سے پہلے کی غالباً1985کے اوائل کی بات ہے)جب آئین کے آرٹیکل چھ کی بابت بات ہوئی تو پروفیسر احمد حسن ہنس پڑے اور مجھ سمیت کچھ اور طالب علموں نے جب پوچھا تھا کہ اس وقت تو آئین پاکستان منسوخ ہے،اسے منسوخ کرنے والے کو کیا سزا ملے گی تو وہ صرف ہنس دیئے ۔

بطور طالب علم آئین پاکستان ہمارے لیے بڑا مقدس تھا اور ہم روز اس کے تناظر میں جب پروفیسر احمد حسن سے سوال کیا کرتے تو اکثر ان کا جواب ہوتا کہ اگر آئین پاکستان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو پھر ایسا ہو اور ویسا ہو۔اس زمانے میں ہم نے تقابلی جائزے کے طور پر برطانیہ،امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت کاآئین بھی پڑھنا شروع کیا تو ہم پر انکشاف ہوا کہ ہمارا 1973 کاآئین برطانوی آئین سے لیا گیا ہے لیکن یہ حقیقت میرے لیے حیران کن تھی کہ برطانوی آئین روایات پر مبنی اور وہ غیر تحریر شدہ ہے۔جب برطانوی معاشرے کو دیکھتے اور پڑھتے تو حیرانگی ہوتی تھی کہ وہاں کاآئین غیر تحریری ہونے کے باوجود وہ فلاحی ریاست ہے اور وہاں قانون کی حکمرانی ہے جبکہ ہماراآئین تحریری شکل میں موجود ہونے کے باوجود منسوخ ہے اور ریاست پاکستان بغیرآئین کے چلائی جا رہی ہے۔جوں جوں مختلف ممالک کے دساتیر پڑھتے گئے،

معلوم ہوا کہ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میںآئین و قانون کی حکمرانی کو اداروں اور افراد سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔وہاں کے قوانین میں طاقتور اور کمزور و غریب اور امیر برابر ہیں۔اسی لیے وہاں انصاف کا بول بالا ہے اور قانون وآئین کی تابعداری ان کے تمام شہریوں پر یکساں طور پر لازم ہے بلکہ کچھ ممالک تو ایسے ہیں جہاں طاقتور کو چھوٹے چھوٹے جرائم یا قانون شکنی پر کمزور کی نسبت زیادہ سزا دی جاتی ہے کہ اس نے طاقت یا اقتدار کے نشے میںآئین و قانون کی روگردانی کی۔
چند سال پہلے میرے قریبی دوست لارڈ شوکت نواز لندن سے آئے ،

لارڈ شوکت نواز برطانیہ کے ایک شہر کے لارڈ مئیر بھی رہ چکے تھے۔انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ میں رات کے وقت لندن کی ایک سڑک پر مقررہ سپیڈ سے تھوڑا سا تیز گاڑی چلا رہا تھا کہ مجھے لندن پولیس نے روک لیا۔جب میں نے اسے اپنا تعارف بطور ممبر پارلیمنٹ کروایا تو اس نے مجھے فوراً جرمانہ کردیا اور ساتھ کہا کہ چونکہ آپ قانون ساز اسمبلی ہاؤس آف لارڈز کے ممبر ہیں اور اگر میں ایک قانون ساز کو جرم پر جرمانہ نہیں کروں گا تو عام شہری کس طرح قانون کی پاسداری کریں گے۔ان کے مطابق پولیس والے نے انہیں کہا کہ اگر آپ عام شہری ہوتے تو میں شاید آپ کو وارننگ دے کر چھوڑدیتا لیکن اگر قانون ساز ادارے کا رکن ہی قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو یہ ایک سنگین جرم سمجھا جائے گا اس لیے میں آپ کو زیادہ جرمانہ کر رہا ہوں۔یہ ہے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کا قانون کی پاسداری۔

اگر روایات اخلاقیات اور ملکی قوانین کی پاسداری اور بلا امتیاز سزاؤں کا خوف ہو تو پھرآئین کے لکھے یا نہ لکھے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔پاکستان میں آج تک اس کے اُلٹ چل رہا ہے اور طاقتور کمزور پر حاوی ہے اور قانون وآئین بھی طاقتور کے گھر کی باندی بن چکا ہے۔آئین کو سیاسی و طاقتور گروہوں نے موم کی ناک بنا چھوڑا ہے اور ہماری بدقسمتی کہ ہمارا تیسرا اور اب تک کے آخری آئین کو بنے 49 سال ہو چکے لیکن ہم آج بھی اس کے مختلف آرٹیکلز کی تشریحات میں مصروف ہیں جبکہ عوام کی فلاح کے متعلقہ قریباً 30 کے قریب آرٹیکلز پر عمل درآمد بھی ناممکنات میں سے ہے۔ الجھے اور دشوار گزار عدالتی و اداراجاتی طریقہ کار کی وجہ سے ریاست پاکستان کے عوام اپنے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے عدالتوں میں جانے سے قاصر ہیں۔

ویسے بھی جس ریاست میں عوام کو بیروزگاری، ناانصافی اور ظلم کا سامنا ہو اور ریاست ان کے بنیادی لوازمات مہیا کرنے میں بری طرح ناکام ہو وہاں کے عوام کے کون سے بنیادی و انسانی حقوق؟

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان غالباً واحد ملک ہے جس میں اتنے تواتر سے عدالت عالیہ و سپریم کورٹ میں مختلف آئینی آرٹیکلز پر آئے دنوں تشریح ہوتی نظر آتی ہے۔کسی بھی نظام میں پارلیمنٹ ہی سپریم ادارہ ہوتا ہے جو قانون سازی کرتا ہے اور اس کی قانون سازی کا اولین مطمع نظر تیار کے باشندوں کی زندگیاں آسان کرنا اور ریاست کو مضبوط کرنا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ریاست پاکستان کی مختلف پارلیمنٹ گزشتہ تین دہائیوں سے نہ صرف عوامی فلاح کے تناظر میں قانون سازی میں ناکام نظر آتی ہیں بلکہ موجودآئین کو بھی اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئے مرضی سے استعمال کرتی دکھائی دیتی ہیں اور اس میں سیاست کے کھیل میں شامل تمام ہی جماعتوں کا کردار ملک و قوم کی فلاح اور سلامتی کا غماز ہرگز ہرگز نہیں ہے اور اس کی زندہ مثال تارکین پاکستان کو ووٹ کا حق دینے اور ای وی ایم مشین کی تحریک انصاف کی حکومت کی آئین سازی اور موجودہ اتحادی حکومت کا اسے اقتدار میں نیب قوانین سمیت ختم کرنا ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو جب سپریم کورٹ نے غیرآئینی قرار دیاتو اتحادی جماعتوں نے خوشی منائی لیکن جب پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو غیرآئینی قرار دیا تو اس پر اتحادی جماعتوں نے فل بنچ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے عدلیہ کے خلاف مہم جوئی شروع کر دی۔

پاکستان کے اولین نو سال بغیرآئین کے گزرے اور 1956 میں بننے والا پہلاآئین دوسال سے بھی کم وقت میں 1958 کے پہلے مارشل لاء کی نذر ہوگیا اور پھر 4 سال بعد 1962 میں ایک آمر نے اپنے لیے ایک صدارتی آئین بنایا جو 1969میں پھر ختم کر دیا گیا۔1969سے1973 تک بغیرآئین کے گزارنے کے بعد مملکت خداداد کو پہلا متفقہ آئین 1973 میں ملا جو آج تک اپنی اصل روح کے مطابق نافذ ہونے کی راہ تک رہا ہے۔اس آئین پاکستان کو 1977میں گیارہ سال کیلئے اور پھر 1999میں قریباً نو سال کیلئے زبان بند کر کے پابند سلاسل بھی رکھا گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ آئین پاکستان 1973 کی بڑی ہمت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں،اداروں اور طاقتوروں کی گستاخیوں، حکم عدولیوں اور زیادتیوں کے باجود آج بھی قائم ہے اور عوام کے حقوق اور فرائض کی بات کرتا ہے۔بات زمانہ طالب علمی کی ہورہی تھی تو مجھے یاد آیا کہ پروفیسر احمد حسن سے جب بھی ہم دوست آئین پاکستان کی ایک امر کی معطلی بارے اور بالخصوص آئین پاکستان معطل کرنے یا توڑنے پر سزائے موت بارے پوچھتے تو وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ لیکچر کے بعد آپ لوگ میرے کمرے میں آجانا، تفصیل سے بات کریں گے (جنرل ضیاءالحق کا دور تھا)آج بھی جب میں نئے عمرانی معاہدے کے تشکیل بارے لکھتا ہوں تو کچھ لوگوں کو بہت برا لگتا ہے لیکن اس بات سے انحراف ممکن نہیں کہ پاکستان میں موجودہ آئین کے ساتھ جس جس قسم کا ہاتھ ہو چکا ہے اس کی مثال بھی دنیا میں نہیں ملتی۔ہر حکمران نے اپنے مفاد کیلئے اس میں مختلف اوقات میں ٹانکے لگائے اور پھر اس کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ملکی بدترین سیاسی حالات کے تناظر میں اس وقت نئے عمرانی معاہدے (دستور)کی ضرورت ہے جس میں اسلامی فقہ کے مطابق دفعات شامل کر کے اسے اسلام سے ہم آہنگ کیا جاے۔جس کے تحت سختی سے ریاست کے طاقتور و کمزور کو یکساں حقوق حاصل ہوں کہ اب یہ موقف غلط ثابت ہو چکا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کے فقدان کی وجہ موجودہ آئین پاکستان نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button