ColumnHabib Ullah Qamar

قیام پاکستان کے مقاصد اوراہل کشمیر .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

پاکستان کے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر ڈائمنڈ جوبلی تقریبات شایان شان طریقے سے منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔اس حوالے سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں خصوصی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اہم عمارتوں کو قومی پرچموں، جھنڈیوں، برقی قمقموں اور روشنیوں سے سجایا جارہا ہے۔ یوم آزادی کی تیاریوں کی مناسبت سے اہم شاہراہوں پر کیمپ لگائے جارہے ہیں جہاں سبز ہلالی پرچم، سفید اور سبز رنگوں پر مبنی ملبوسات اور دیگر اشیاء موجود ہیں۔ سڑکوں پرلگائے گئے سٹالوں پر قومی نغموں کی گونج سنائی دینے سے ایک فرحت بخش احساس دیکھنے میں آیاہے۔ ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد دس اگست سے جاری ہے اور یہ سلسلہ چودہ اگست یوم آزادی تک جاری رہے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی طرف سے پارلیمنٹ میں بھی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کا باضابطہ افتتاح کیا گیا ہے ۔ڈائمنڈ جوبلی کا عنوان میرا پارلیمان، رہبر ترقی و کمال رکھا گیا ہے۔ یہ تقریبات تیرہ اگست کی رات تک جاری رہیں گی۔ ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کا آغاز ترجمان ماضی شان حال کے عنوان سے نایاب تصویری نمائش سے ہوا۔سپیکر قومی اسمبلی پرویز اشرف کا کہنا تھا ہمیں چاہیے کہ اپنے عظیم رہنماؤں کی خدمات کو یاد رکھیں۔پاکستان کی پارلیمنٹ بھی اپنی ڈائمنڈ جوبلی منا رہی ہے۔ہمیں عزم کرنا چاہیے کہ پارلیمنٹ کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں۔

یہ بھی پڑھیے

چودہ اگست کا دن ہر سال وطن عزیز پاکستان کے یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کی مناسبت سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا اور اس کی بنیادوں میں لاکھوں شہداء کا لہو شامل ہے۔ برصغیر کے مسلمانوںنے یہ آزاد خطہ حاصل کرنے کیلئے بے پناہ قربانیاں پیش کیں۔تقسیم ہند کے موقع پر باقاعدہ سازش اور منصوبہ بندی کے تحت مسلم کش فسادات کو پروان چڑھایا گیا، مسلمانوں کی بستیوں پر حملے کر کے لوٹ مار کی گئی ، بچوں ، خواتین ، نوجوانوںاور بزرگوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیاجس کے نتیجہ میں لاکھوں مسلمان اپنے آبائی گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس دوران پاکستان آنے والی ٹرینیں مسلمانوں کی نعشوں سے بھری ہوتی تھیں۔ بلاشبہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان قیام پاکستان کے وقت شہید کیے گئے۔ ہندوئوں اور سکھوں کی جانب سے مسلمانوں کااتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا کہ تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ندیاں، نالے اور دریا مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو گئے اورمیلوں دور تک مسلمانوں کی کٹی پھٹی لاشیں دکھائی دیتی تھیں۔ ہزاروں واقعات ایسے ہیں کہ مائوں سے بچے چھین کر تلواروں اور برچھیوں سے کاٹ ڈالے گئے اور مائوں کو اپنے جگر کے ٹکڑوں کا خون پینے پر مجبور کیا گیا۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو ان قربانیوں سے آگاہ کرنے، بار بار دہرانے اور جب کبھی موقع آئے انہی جذبوں کے تحت ملکی سرحدوں کی حفاظت کیلئے قربانیاں پیش کرنے کے عزم و ارادے باندھنے کی ضرورت ہے۔ ہم کلمہ طیبہ کی بنیاد پر پیش کی گئی قربانیوں کے ان
واقعات کو جس قدر دہرائیں گے قیام پاکستان کے مقاصد کو اتنا زیادہ سمجھیں گے اور جب ہم ان مقاصد کو اپنے دل و دماغ میں پختہ کر لیں گے تو پھر پاکستان کی اس غیور قوم کو کوئی شکست سے دوچار نہیں کر سکے گا۔یہ ملک ناقابل تسخیر قوت بنے گا اور ہمارے سیاسی و معاشی مسائل کی طرح کشمیر سمیت دیگر مسائل بھی ان شاء اللہ حل ہو جائیں گے۔

ہم اپنے بڑوں اور بزرگوں سے قیام پاکستان کے موقع پر پیش آنے والے جو ہولناک واقعات سنتے ہیں ، یہ کوئی قصے کہانیاں نہیں بلکہ ایسے حقائق ہیں کہ جنہیں بھلانا، ذہنوں سے محو کرنا یا اپنے آپ سے جدا کرنا اپنے قومی تشخص کو بھولنے کے مترادف ہے۔ لاکھوں شہداء کی قربانیوں کے نتیجہ میں ستائیس رمضان المبارک کو پاکستان کی صورت میں جو خطہ معرض وجود میں آیاانگریز اور ہندو اس کے سخت مخالف تھے اور وہ کسی طور نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان ٹکڑوں میں تقسیم ہو اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر کی صورت میں مسلمانوں کو ایک الگ وطن حاصل ہو لیکن یہ اللہ کا خاص فضل و کرم ہے کہ ان کی تمام تر سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود پاکستان ایک آزاد ملک کے بطور دنیا کے نقشے پر ابھرا اور تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا ہوا پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد آنے والے حکمرانوں نے سمجھ لیا کہ یہ آزاد خطہ ملنے کے بعد ہمارا مقصد حل ہو گیا اور ہم منزل پر پہنچ گئے ہیں حالاں کہ پاکستان کا معرض وجود میں آنا ہماری منزل کا ایک مرحلہ تھا، اس کے بعد اگلا مرحلہ مقبوضہ جموں کشمیر آزاد کروانے کے
بعدپاکستان کی تکمیل تھا۔ تقسیم ہند کے وقت برطانوی حکومت نے ریاستوں کے الحاق کا جو فارمولہ وضع کیا اس کی روسے ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا چاہئے تھا۔کشمیری مسلمان جو آج گلی کوچوں میں سبز ہلالی پرچم لہراتے دکھائی دیتے تھے، اس وقت بھی ان کی مرضی یہی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے تھے کیوں کہ اہل پاکستان کے ساتھ ان کا دین، ایمان، جغرافیہ اور عقائد و ایمان کا مضبوط رشتہ تھا۔یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں موجود کشمیری مسلمانوںنے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بھرپور انداز میں حصہ لیا اور دوسرے مسلمانوں کی طرح انہوںنے بھی صرف کلمہ طیبہ کے رشتہ کے بنیاد پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ یوم پاکستان کے موقع پر لاہور میں جب قرارداد پیش کی گئی تو اس میں بھی کشمیری جماعتوں کی قیادت نے شریک ہو کر قیام پاکستان کے مطالبے اور مقاصد سے پوری طرح متفق ہونے کا اظہار کیا۔دوسرے لفظوں میں انہوںنے یہ بات ثابت کی کہ کشمیری مسلمانوں کی پاکستان سے محبت محض قراردادوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس کیلئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہیں۔حقیقت ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد قیام پاکستان کیلئے تھی جبکہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہدقیام پاکستان کے علاوہ تکمیل پاکستان کیلئے تھی جو آج بھی جاری ہے۔ مظلوم کشمیری مسلمان اس سفرمیں نہ تھکے ہیں نہ ہارے ہیں بلکہ پچہتر برس گزرنے کے بعد بھی قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہے ہیں۔

بھارت کی غاصب مودی حکومت نے تین سال قبل جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے۔ کشمیری قوم مسلسل محاصرے میں ہے۔ روزانہ کشمیریوں کا خون بہایا جارہا ہے مگر وہ آج بھی پاکستانی پرچم لہرا کر سینوں پر گولیاں کھا رہے اور وطن عزیزپاکستان کا یوم آزادی منا رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان جو کشمیریوں کی سب سے بڑی وکیل ہے ان کی مددوحمایت کیلئے بھرپور کردار ادا کرے۔کشمیر ی عوام ہر سال پندرہ اگست کو ہندوستان کا یوم آزادی یوم سیاہ اور پاکستان کے یوم آزادی کو یوم تشکر کے طور پر مناتے ہیں۔ امسال بھی کشمیری عوام اس حوالے سے پرجوش نظر آتے ہیں۔ ان کے دل چونکہ پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اس لیے وہ ہر سال پاکستان کا یوم آزادی عقیدت و احترام اور زبردست جو ش و جذبے سے منا کر بین الاقوامی دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ بھارت کے غیر قانونی قبضے سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں سبز کپڑے کی خریدوفروخت پر پابندی لگا کر بھی دیکھ لیا لیکن اس کے باوجودکشمیرکے تمام گلی کوچوں میں ہر اہم موقع پر سبز ہلالی پرچم لہراتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی میںکبھی کبھار کشمیر کے کسی علاقے میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا تھالیکن اس وقت یہ صورتحال ہے کہ بھارتی فوج گولیاںبرسا رہی ہوتی ہے مگر کشمیر کے علاقوں اور گلی کوچوں میںنوجوان پاکستانی پرچم لے کر نکل آتے ہیں اور بھارتی مظالم اور بربریت کی کوئی پرواہ نہیںکی جاتی۔چودہ اگست یوم آزادی کی آمد پرجب ہم ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں، ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔پاکستانی قوم اس خوشی کے موقع پر یقیناً اپنے کشمیری بھائیوں کے دکھ درد کو محسوس کرتی ہے۔پاکستانی حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ حق خودارادیت کی جدوجہد میں مظلوم کشمیریوں کا کھل کر ساتھ دیں اور ہر فورم پر ان کیلئے بھرپور آواز بلند کرنے کا فریضہ سرانجام دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button